اسلامی مارکیٹنگ کی روح --- خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بیان

اسلامی مارکیٹنگ میں واقعی خوبیوں کے ساتھ واقعی خامیاں بتانا ضروری قرار پاتا ہے۔ جبکہ ہم صبح وشام جس مارکیٹنگ کا سامنا کرتے ہیں، وہاں مبالغہ آمیز خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، اور تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلہ بیچنے والے سے کہا کہ بارش کی وجہ سے جس حصہ میں نمی آگئی ہے، اسے اوپر رکھو، تاکہ لوگ خریدنے سے پہلے دیکھ سکیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی فرمان تھا، کہ اگر کوئی شخص کوئی کچھ فروخت کرے، تو اس کے خامی والے پہلو ضرور بیان کرے۔ اور جو سودے میں شریک نہ ہو مگر جانتا ہو، اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ متعلقہ فرد کو آگاہ کردے۔
یاد رہے کہ خامیاں بتانے کی ذمہ داری کا دائرہ بہت وسیع ہے، اسے سادہ خرید وفروخت تک محدود کرنا درست نہیں ہے۔ مارکیٹنگ سامان کی ہو یا پروجیکٹ کی، اداروں کی ہو یا آئیڈیاز کی، افراد کی ہو یا کتابوں کی بلا مبالغہ مثبت پہلووں اور بنا کم وکاست منفی پہلووں کا بیان ہی مارکیٹنگ کا اسلامی طریقہ ہے۔
اکثر شرکت ومضاربت پر مبنی سرمایہ کاری کی اسکیمیں سامنے آتی ہیں، یہ اسکیمیں افراد بھی پیش کرتے ہیں، اور بڑی کمپنیاں بھی پیش کرتی ہیں، ان میں عام طور سے منافع کے تعلق سے لوگوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، اور نقصان ہونے کے امکانات کو یکسر پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ گو کہ خود شرکت ومضاربت اسلامی طریقے ہیں، لیکن ان کی اس طرح کی مارکیٹنگ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے، درست رویہ یہ ہے کہ دیانت داری کے ساتھ صحیح Feasibility study پیش کی جائے، جس میں نفع اور نقصان دونوں کے امکانات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے، اور اس کے بعد فیصلہ سرمایہ لگانے والے کی صواب دید پر چھوڑدیا جائے۔ سرمایہ لیتے وقت رنگین خواب دکھانا اور نقصان ہوجانے پر شریعت کا یہ حوالہ دینا کہ نقصان سرمایہ لگانے والے کو برداشت کرنا ہوتا ہے، دراصل شریعت کے ساتھ نا انصافی ہے۔
تعلیمی اداروں کے اشتہارات میں عام طور سے ہر ادارہ "قابل اعتماد تعلیم گاہ" اور "مثالی تربیت گاہ" ہونے کا دعوی کرتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ فراغت کے وقت اکثر سرپرستوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن اونچے ارمانوں کے ساتھ اپنے بچے کو داخلہ دلایا ہوتا ہے، وہ مٹی میں مل چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے درست رویہ یہ ہے کہ یا تو تعلیمی ادارہ کو واقعی "قابل اعتماد تعلیم گاہ" اور "مثالی تربیت گاہ" بنایا جائے، ورنہ اس طرح کے خلاف واقعہ دعوے کرنے کی بجائے، ہر سرپرست کو داخلہ سے پہلے تعلیمی ادارے کی واقعی صورت حال سے باخبر کیا جائے، تاکہ وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہ رہے۔
بسا اوقات ہمارے ذہن میں ایک آئیڈیا آتا ہے اور ہم اسے تجویز کی صورت میں پیش کرتے ہیں، اس تجویز کو سب سے منوالینے کی دھن میں ہم اس کے مثبت پہلووں کو پوری قوت سے پیش کرتے ہیں، اور اس کے منفی پہلووں کو نظر انداز کردیتے ہیں، یہ بھی درست رویہ نہیں ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ زیر بحث آئیڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلووں کو ممکنہ حد تک تلاش کیا جائے، اور آئیڈیا کو پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کیا جائے۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی صاف گوئی اورFull disclosure سے کیا مارکیٹنگ ہو پائے گی؟ یہ سوال ایک صحابی رسول حضرت جریر سے بھی کیا گیا، لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ تو اپنے سامان کی ساری خامیاں کھول کھول کر دکھاتے اور گن گن کر بتاتے ہیں، ایسے کیسے کاروبار چلے گا؟ انہوں نے کہا، اللہ کے رسول سے ہم نے جو عہد کیا ہے اسے پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ عہد کی پاس داری بھی خوب ہوئی اور کاروبار بھی خوب چلا۔
توکل کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کاروبار کرتے ہوئے نفع حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کی ان ساری تدبیروں کو یکسر مسترد کردیا جائے جو حکم الہی کی تعمیل میں رکاوٹ بنیں۔ اور ایسے توکل کی برکتوں اور ایسے توکل والوں کے نصیبوں کا کیا پوچھنا۔
بات ادھوری رہ جائے گی اگر یہ نہیں کہا جائے کہ جہاں مومن دیانت دار ہوتا ہے اور اپنی چیز کی پیش کش کے وقت ہر خوبی اور ہر خامی سے آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے، وہیں مومن کو سمجھ دار بھی ہونا چاہئے، اور سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ اپنے اندر تحقیق کا ذوق پیدا کرے، اور آنکھ بند کرکے کچھ قبول نہ کرے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر اچھے نظر آرہے اناج کے اندر تک ہاتھ ڈال کر دیکھا، اور تب معلوم ہوا کہ نیچے والے حصے میں نمی ہے۔

دیانت داری لازم، دیانت داری کی حفاظت بھی لازم

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بد دیانتی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے" من غش فلیس منا۔
مومن کو دیانت دار ہونا چاہئے، اور سمجھ دار بھی ہونا چاہئے، سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے آپ کو بدعنوانی کے الزام سے بچا کر رکھے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی دیانت دار ہوتا ہے، اور صورت حال اسے ایسے مقام پر لے جاتی ہے جہاں لوگ اسے بد دیانت اور بے ایمان سمجھنے لگتے ہیں۔
ایک چھوٹے سے واقعہ نے مجھے یہ بڑا نکتہ سکھایا، ہوا یوں کہ میں اعظم گڑھ سے دہلی جا رہا تھا، ایک شخص نے مجھے ایک بند لفافے میں اپنے پتہ کے ساتھ چند سو روپے رکھ کر دئے، کہ یہ فلاں رسالہ کی سالانہ خریداری کی رقم ہے، میں اسے رسالے کے دفتر میں پہونچا دوں۔ میں نے دہلی پہونچ کر اپنے دفتر کے ملازم کے ہاتھ وہ لفافہ اس دفتر میں بھجوادیا، اور مطمئن ہوگیا، چند ماہ بعد جب میں دوبارہ وطن گیا تو اس شخص نے تشویش ظاہر کی کہ وہ رسالہ اب تک جاری نہیں ہوا، میں نے واپس جاکر رسالے کے دفتر میں معلوم کیا تو چونکا دینے والا جواب ملا کہ ہمیں تو ایسا کوئی لفافہ موصول ہی نہیں ہوا ہے۔ اس وقت تو میں نے اپنی جیب سے چند سو روپے دے کر رسید لے لی، ساتھ ہی آئندہ زندگی کے لئے ایک قیمتی سبق بھی لے لیا۔
میں نے سوچا کہ اس بار تو چند سو جیب سے ادا کر کے اپنی دیانت داری کو بچالیا، اگر خدا نخواستہ رقم میری استطاعت سے بڑی ہوتی، تو میرے پاس تو اپنے دفاع کے لئے کوئی دلیل بھی نہیں تھی۔
سمجھ داری اور احتیاط کا تقاضا غالبا یہ تھا کہ بند لفافے کی بجائے، میں اس ساتھی سے کھلا لفافہ مانگتا، اس کی رقم گن کر اس سے تحریری سند لیتا، اور اس کے بعد متعلقہ دفتر کو وہ رقم بدست خود ادا کرتا، اور اس کی رسید کی ایک کاپی اس کو بھیج دیتا اور ایک اپنے پاس محفوظ رکھتا۔ غرض یہ کہ ہر مرحلے پر رقم کس کے ہاتھ سے کس کے ہاتھ میں پہونچی اس کا تحریری ریکارڈ ہوتا۔
ایمان داری کی حفاظت کا یہ موضوع نہایت اہم اس لئے ہے کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے، اور اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے، کہ بہت سارے دین وملت کے قائدین اور خادمین اپنی بددیانتی کی وجہ سے نہیں بلکہ معمولی لا پرواہی کی وجہ سے بدعنوانی کے الزام کا نشانہ بنے، اور ان کی شخصیت کو اس سے زبردست نقصان پہونچا۔
میرے ایک واقف کار نے ایک تاجر صاحب سے ایک اجتماعی ادارہ کے لئے چندہ وصول کیا، اور رقم ادارہ میں لا کر جمع کردی۔ چند سال بعد معاملہ نے کروٹ لی، رقم کی مقدار کا سوال اٹھا، اور الزام کی سوئی ان صاحب پر جاکر ٹک گئی، اب اسے ناسمجھی کہیں یا ستم ظریفی کہ ان کے پاس اپنی دیانت داری کو ثابت کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔
مدرسہ سے فارغ ہونے والے کے پاس فراغت کی ایک سند ہوا کرتی ہے، جسے وہ اپنی اہلیت کے ثبوت کے طور پر کوتاہ بینوں کے سامنے پیش کیا کرتا ہے، ایک شخص جب کسی مالی معاملہ سے فارغ ہو، تو اسے بھی اپنی ایمان داری کو ثابت کرنے والی کوئی سند ضرور اپنے ساتھ رکھ لینا چاہئے۔ اور دیگر اہم دستاویزوں کی طرح اس سند کو بھی تاحیات سنبھال کر رکھنا چاہئے۔
دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اجتماعی ذمہ داریوں پر فائز ہوتے ہیں، اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، وہ لوگوں کی بدگمانیوں کا نشانہ بھی زیادہ بنتے ہیں، ان کا تھوڑا سا سامان تعیش بھی لوگوں کی نگاہ میں بہت کھٹکتا ہے۔ لوگوں کے دیکھنے کا انداز غلط ہو سکتا ہے، ان کی بدگمانیوں کا محرک تنگ دلی اور حسد بھی ہوسکتا ہے، لیکن احتیاط اور ہوشیاری ادھر بھی مطلوب ہے، اجتماعی دولت میں غبن کی تہمت سے محفوظ رہنے کے لئے بہتر ہے کہ آدمی اپنے ذرائع آمدنی سے ممکنہ حد تک لوگوں کو باخبر رکھے۔ ایک مدرسہ کے غریب استاذ کا جب یکایک ایک شاندار بنگلہ تیار ہوگیا، تو بد گمانیوں نے سر اٹھانا شروع کیا، استاذ نے سمجھ داری اور شفافیت سے کام لیا اور سب کو بتادیا کہ یہ بنگلہ ان کے فلاں پرانے شاگرد نے ان کے لئے بنوایا ہے، یہ وضاحت اور پہلے ہوجاتی تو اور اچھا ہوتا۔
سماجی مقام ومنصب کی نزاکت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ تعیشات کے اظہار سے خود کو ممکنہ حد تک دور رکھا جائے، بدگمانیوں کی گاڑی کو ایندھن فراہم کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔
یاد رہے کہ بدعنوانی کا الزام شدید احتیاط کے باوجود بھی راہ پا سکتا ہے، اجتماعی ذمہ داریوں سے میرا زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، اور نہ ہی مالی معاملات سے، اس کے باوجود میں کئی بار بالکل بال بال بچا ہوں، اس لئے ہمیشہ اللہ تعالی سے اس کی پناہ میں جگہ مانگتے رہنا چاہئے۔

معاملات کی دنیا --- تجربات کی درس گاہ

یہ طالب علمی کے اس زمانے کی بات ہے جب جامعۃ الفلاح کے آخری سال میں تھا، جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار اسکاؤٹ ٹریننگ پروگرام ہوا، اور بہت بڑے پیمانے پر ہوا، ٹریننگ کے لئے مہتاب حسین صاحب آئے، جن کے پاس بہت ساری یادیں، تمغے، تجربے اور لطیفے تھے۔ ان کی مردم شناس نگاہ نے غلطی کی اور مجھے پورے گروپ کا لیڈر بنادیا، جو ساتهی اس میں شریک ہوئے ان کے دامن میں یقینا بہت ساری حسین یادیں ہوں گی، لیکن میری خوشیوں میں کچه تلخیاں بهی شامل ...ہوگئیں. ہوا یہ کہ چند روز تو کرتے پاجامے میں ٹریننگ چلی مگر پھر طے پایا کہ باقاعدہ یونیفارم تیار کئے جائیں، اس کے لئے شریک طلبہ سے ایک متعین رقم جمع کی گئی اور اعظم گڑھ شہر میں کپڑوں کی سب سے بڑی دوکان پر پہونچ گئے، چونکہ میں اس معاملہ میں بالکل کورا تھا، اس لئے دو تاجروں کو بھی لے گیا۔ دوکان دار نے بہت اچھا کپڑا دکھایا، اور بہت مناسب قیمت بتائی، اس نے بتایا کہ وہ یونیفارم کی تیاری کا بھی انتظام رکھتا ہے، چنانچہ معاملہ طے پاگیا۔ اس نے ایڈوانس رقم مانگی، اور تاجر ساتھیوں کے کہنے پر میں نے پچیس ہزار میں سے دس ہزار اس کے حوالے کردئے۔ جب میں متعین دن پر کپڑے لینے گیا تو کپڑے دیکھ کر سٹپٹا گیا، ہم نے تو نہایت اعلی کوالیٹی کا کپڑا منتخب کیا تھا، اور یہاں تو نہایت گھٹیا کپڑے کے سوٹ سلے ہوئے تھے۔ میرے احتجاج کرنے سے پہلے ہی اس نے ایک اور صدمے سے دوچار کردیا یہ کہ کر کہ درزی کا اندازہ غلط تھا، کپڑا زیادہ لگ گیا، اس لئے پانچ ہزار روپے مزید ادا کرو۔ میرا احتجاج اور صدائے فغاں رائیگاں گئی، اور صورت حال کے جبر کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
جامعہ پہونچا تو عجب کیفیت تھی، ساتھی ناراض کہ کپڑا بھی غیر معیاری اور سائز بھی نا ساز۔ دوسری طرف پانچ ہزار کے خسارے کو پورا کرنے کی فکر، کہ ان ناراض طلبہ سے مزید رقم کس منھ سے مانگوں۔ خسارے کا مسئلہ تو اللہ بخشے امی مرحومہ نے اپنی تجوری سے حل کردیا، لیکن طلبہ کی ناراضگی دور کرنے کا کوئی علاج میرے پاس نہیں تھا۔
یہ معاملات کی دنیا میں دھوکہ کھانے کا پہلا تجربہ تھا، جس کی تلخی سے عرصہ دراز تک طبیعیت بدمزا رہی، اور پھر تجربات کی اس درس گاہ میں بہت سارے اسباق پڑھنے کا موقعہ ملا، جو آموختہ اچھی طرح یاد رہ گیا وہ یہ کہ معاملات کی دنیا سمجھ داری اور بیدار مغزی چاہتی ہے، یہاں حضرت عمر کا وہ قول بہترین رہنما ہوتا ہے کہ (لست بخب ولا یخدعنی خب) "میں دھوکہ باز تو نہیں ہوں مگر بودا بھی نہیں ہوں کہ کوئی دھوکے باز مجھے دھوکہ دے دے"۔
تاہم ایک سبق جو بار بار دوہرانے کے بعد بھی یاد نہیں ہوسکا، وہ یہ کہ اپنے قریبی لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے کس طرح کی سمجھ داری سے کام لیا جائے، عربی میں ایک مثل مشہور ہے، (تعاشروا كالإخوان وتعاملوا كالاجانب) "بھائیوں کی طرح حسن سلوک کرو، اور غیروں کی طرح معاملات کرو" لیکن اس نسخہ پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے، جبکہ عمل نہیں کرنے کی صورت میں جو تکلیف پہونچتی ہے وہ بھی ناقابل بیان ہوتی ہے۔ ناقابل بیان اس لئے بھی کہ بہت شدید ہوتی ہے، اور ناقابل بیان اس لئے بھی کہ بیان کس سے کیا جائے۔

اسلامی تحریکوں کا عدالتی کردار

دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کا مقصد اور ان کی دعوت انسانوں کو اس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر قبول کریں، اسلامی تحریک دعوی کرتی ہے کہ اس طرح انسانوں کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی بن جائے گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا اور عدل واطمینان کا دور دورہ ہوگا۔ اسلامی تحریک اس موضوع پر بحث کے لئے بھی پورے اعتماد کے ساتھ خود کو پیش کرتی ہے۔
اسلامی تحریکات کو منزل مقصود کب ملے گی اس سے قطع نظر، اسلامی تحریک کے اس عظیم مقصد، دعوت اور دعوے کا عملی امتحان اس وقت ہونے لگتا ہے جب تحریک کے کسی فرد سے متعلق کوئی قضیہ یا تنازعہ ابھرتا ہے، اور اس سلسلے میں تحریک کے اندر ایک طرح کی عدالتی کارروائی انجام پاتی ہے۔ حق اور ناحق کا تعین ہوتا ہے، اور باقاعدہ فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ متعلقہ فرد کے علاوہ خود تحریک کے لئے یہ عدالتی کارروائی بڑی نزاکت رکھتی ہے، اس عدالتی کارروائی کا ایک ایک پہلو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی تحریک اپنے عظیم مقصد، دعوت اور دعوے کے سلسلے میں کس قدر اہلیت کی حامل اور اعتبار کے قابل ہے۔
دنیا بھر میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے کے لئے طویل تعلیم اور گہری فراست مطلوب ہوتی ہے، ایک عام اسلامی عدالت کے قاضی کے لئے بھی نظام قضا کی تعلیم کا حصول ضروری سمجھا جاتا ہے، اسلامی تحریک کی عدالت کے لئے تو نظام قضا کی بھر پور تعلیم اوراعلی عدالتی صلاحیت نہایت ضروری قرار پاتی ہے۔ اگر کسی اسلامی تحریک کے پاس اس سطح کا انتظام نہیں ہو، تو اسے اس انتظام کو اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہئے، اور اس دوران ایسے معاملات کو خود فیصل کرنے کی بجائے ملک میں موجود متبادل اسلامی نظام قضا کے حوالے کردینا چاہئے۔
یہ صحیح ہے کہ اسلامی تحریکات کی عدالتوں کے فیصلے معروف معنی میں نافذ نہیں ہوتے ہیں، البتہ یوں ضرور نافذ ہوتے ہیں، کہ جس فرد کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے، اس کا یا تو تحریک سے فوری اخراج ہوجاتا ہے یا فیصلے کو قبول نہیں کرنے کی صورت میں اخراج ہوجاتا ہے۔ اسلامی تحریک سے فرد کا اخراج اگر کسی بدعنوانی کی بنیاد پر ہو تو وہ اپنے آپ میں ایک کڑی سزا ہوتی ہے، کیونکہ وہ شخص نہ صرف ایک پوری تحریک بلکہ اپنے آس پاس کے معاشرے کی نظر میں گر جاتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ نیک لوگوں کی نظر میں گرجانا تاحیات قید با مشقت سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتا ہے۔ اس قدر سخت سزا صادر کرنے سے پہلے انصاف کے تمام تقاضوں کی احسن طریقے سے تکمیل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
اسلامی تحریکات کی عدالتی کارروائی اتنی مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہو وہ اپنے موقف کی کمزوری سے آگاہ ہوجائے، اور ہرغیر جانبدار مبصر فیصلے کی بنیادوں کے مضبوط ہونے کی گواہی دے۔ یہ تو ممکن ہے کہ تمام کوششوں اور تدبیروں کے باوجود غلط فیصلہ ہوجائے، لیکن فیصلے تک پہونچنے کا عمل اس بات کی شہادت ضرور دے کہ فیصلہ سنانے والوں نے انصاف تک پہونچنے کے تمام راستے اختیار کرلئے تھے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ تحریک کی قیادت کو اس طرح کی عدالتی کارروائی کو بذات خود انجام نہیں دینا چاہئے، کہ یہ کام خصوصی صلاحیت اور زیادہ فرصت چاہتا ہے، جبکہ قیادت کے پاس گونا گوں مصروفیات ہوا کرتی ہیں۔ مزید یہ کہ اس معاملہ میں ذرا سی کوتاہی قیادت کی ساکھ کو بڑا نقصان پہونچاتی ہے۔
اس بارے میں میری تجویز یہ ہے کہ ہر اسلامی تحریک میں کم از کم دو سطح کی مستقل دو بنچیں قائم کی جائیں، جو ایسے افراد پر مشتمل ہوں جنہوں نے اسلامی نظام قضا کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو، اور ان کے اندر وہ فراست بھی موجود ہو جو ایک قاضی کے لئے مطلوب ہے۔ اور وہ تمام قضیے اور تنازعات جن کا تعلق تحریک کے افراد سے ہو پہلی بنچ میں فیصلے کے لئے اور دوسری بنچ میں فیصلے کی توثیق کے لئے پیش کئے جائیں، یہ خصوصی بنچیں پوری یکسوئی کے ساتھ ان معاملات پر کام کریں، کارروائی کی تفصیل کے ساتھ فیصلے کی مفصل بنیادیں تحریری ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کی جائیں۔ اور کم ازکم متعلقہ لوگوں کو اس کا نسخہ حاصل کرنے کا موقعہ رہے۔
اسلامی تحریک کی یہ پہچان بننا ضروری ہے کہ وہ اقامت عدل کے لئے دنیا میں سب سے زیادہ سنجیدہ اور مخلص ہے۔ اس کے یہاں صرف نعرے اور دعوے نہیں ہیں، بلکہ اہتمام اور التزام بھی ہے۔
یاد رہے عدل کی اقامت اور عدل کی شہادت میں گہرا تعلق ہے، قرآن مجید کا بیان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ "اے ایمان والو، عدل کو قائم کرنے والے اور عدل کی گواہی دینے والے بن جاؤ اور یہ دونوں کام اللہ کے لئے کرو"

امت کی ضرورت تربیت یافتہ قیادت

ایک مرد مومن کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو فائدہ پہونچانے والی چیزوں کو دریافت کرے، اور اگر دوسرے دریافت کرلیں تو اسے قبول کرکے انسانوں کے فائدے کے لئے عام کرے۔
مہذب اور متمدن دنیا کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے، کہ موجودہ زمانے میں کامیاب منتظمین اور قائدین کے لئے خصوصی ٹریننگ ضروری ہے، جس سے ان کی شخصیت میں قوت اور اثر پیدا ہو، اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے طے کردہ اہداف کو بحسن وخوبی حاصل کرسکیں۔ چنانچہ اس موضوع پر نوع بہ نوع لٹریچر شائع ہوئے اور طرح طرح کی ٹریننگ کے تصورات سامنے آئے۔ ہر انسانی کوشش کی طرح ان میں خامیاں بھی پائی جاسکتی ہیں، لیکن ان سے دنیا بھر کے اداروں اور تنظیموں کے قائدین نے استفادہ کیا اور اپنے اداروں اور تنظیموں کو بھرپور فائدہ پہونچایا۔
امت مسلمہ جو متمدن دنیا سے بہت سارے معاملات میں پیچھے ہے، اس کا ایک بڑا مسئلہ خام قیادت کا بھی ہے، اداروں کے منتظمین ہوں یا جماعتوں کے قائدین، وہ جس وقت انتظام وقیادت کا منصب سنبھالتے ہیں، انتظام وقیادت کے فن سے قدرے ناواقف ہوتے ہیں، نہ انہوں نے اس کی کوئی تربیت حاصل کی ہوتی ہے، اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی قابل اعتبار تجربہ ہوتا ہے۔
چونکہ امت میں اس طرح کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لئے جن لوگوں کی شخصیت کا زیادہ اظہار کسی بھی سبب سے ہوجاتا ہے، وہ جماعتوں اور اداروں کے مناصب پر فائز ہوجاتے ہیں، یا کردئے جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں ان کی شخصیت خصوصی ٹریننگ کی سخت محتاج ہوتی ہے۔ ان کی حیثیت اس شخص کی ہوتی ہے، جو خود سے اچھل کر یا لوگوں کے ڈھکیلنے پر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ تو گیا ہو، مگراس کو ڈرائیونگ کرنا نہیں آتا ہو۔ ممکن ہے وہ کسی سنسان شاہراہ پر جیسے تیسے گاڑی چلا لے جائے، مگر ہائی وے پر جہاں تیز رفتار گاڑیاں اندھا دھند دوڑ رہی ہوں، بغیر سیکھے گاڑی چلانا یقینا خطرناک ہوتا ہے۔
اور کسی ادارے کا انتظام یا کسی جماعت کی قیادت تو ہائی وے پر گاڑی چلانے سے کہیں زیادہ خطرناک کام ہے، ذرا سی کوتاہی سے بہت ساری توانائیاں بلکہ زندگیاں ضائع ہوجاتی ہیں، اتنا اہم اور نازک کام بھر پور ٹریننگ لئے بغیر انجام دینا ایک نامعقول بات ہے، اور امت کے ادارے اور جماعتیں اس المیہ کا عرصے سے شکار ہیں۔
یہ درست ہے کہ قیادت اور انتظام کی صلاحیت بسا اوقات خدا داد ہوتی ہے، لیکن اگر خدا داد صلاحیتوں کا حامل شخص میسر نہ آئے تو کام چلانے کے لئے ایسے اشخاص کی مدد لینا ضروری ہوجاتا ہے، جو تربیت اور ٹریننگ کے ذریعہ مفید مطلب بن سکیں۔ پهر جن کو خداداد قائدانہ صلاحیت حاصل ہو ان کے لئے بهی ٹریننگ ضروری ہوتی ہے کہ اس سے شخصیت کے مختلف پہلووں کی تکمیل وتزئین ہوتی ہے.
چونکہ ہمارے یہاں قیادت کا مطلب بس ایسے افراد ہیں جو ان اداروں اور جماعتوں کو سکون سے چلتے رہنے دیں، اس لئے ہمارے قائدین ومنتظمین کی قائدانہ اور منتظمانہ صلاحیتوں کا امتحان بھی نہیں ہوپاتا، لیکن جب کوئی اس پر غور کرتا ہے کہ یہ ادارے اور تنظیمیں مسلسل زوال کا شکار کیوں ہیں تو حقیقت سامنے آجاتی ہے، اور پهر قیادت کے تعلق سے شدید مایوسی ہوتی ہے۔
قائدین اور منتظمین کے غیر تربیت یافتہ یا محتاج تربیت ہونے کی بعض علامتیں یہ ہیں:
وہ کسی ہدف کے بغیر ہی اپنی قائدانہ زندگی گزاردیتے ہیں۔
وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کبھی نہیں کرتے ہیں، اور اگر ناکامی خود سامنے آجاتی ہے تو اپنے ماتحتوں پر ڈال دیتے ہیں۔
ان کی کارکردگی سے متعلق کوئی سوال ہو تو وہ جھنجھلا جاتے ہیں
ان کی کارکردگی کے اوپر تنقید ہو تو وہ چراغ پا ہوجاتے ہیں
وہ اپنے ماتحتوں کا معیار بلند کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے ہیں
وہ اطاعت کے خوگر ہوتے ہیں، اور مشوروں سے خود کو بے نیاز سمجھتے ہیں
وہ اپنا جانشین تیار نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ اپنے ماتحت ذمہ داروں کے جانشین تیار کرنے کا انتظام کرتے ہیں
ان کے آس پاس فعال اور تخلیقی ذہن رکھنے والے لوگوں کی بجائے خوشامد کرنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔
غیر تربیت یافتہ شخص کو ذمہ دار کے طور پر قبول کرلینا تو لوگوں کی مجبوری ہوسکتی ہے، کیونکہ تربیت یافتہ لوگ واقعی کم پائے جاتے ہیں اور ملکی اور صوبائی اور پھر ادارہ جاتی سطح پر ان کا ملنا آسان نہیں ہے، لیکن ذمہ دار بن جانے کے بعد اپنی تربیت کی فکر کرنا بہر حال ذمہ دار کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور اس سلسلے میں کوتاہی دراصل بڑی کوتاہی ہے۔
ماتحتوں کی تربیت کی طرف تو قیادت کا ذہن آسانی سے چلا جاتا ہے، لیکن خود قائد محسوس کرے کہ اس کو اپنی ٹریننگ کی ضرورت ہے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب قائد کے اندر ایک ممتاز اور مثالی قائد بننے کا سچا جذبہ ہو، اور اپنے ادارے یا تنظیم کو نئی بلندیوں تک پہونچانے کا عزم اور حوصلہ ہو۔

نسلوں کے درمیان بڑھتے فاصلے

دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج جنریشن گیپ یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں، گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان، اسکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان، اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔ ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ضروری ہے، ورنہ ہمارے خواب چکنا چور ہوجائیں گے، اور رفتار کا فرق سمتوں اور منزلوں کا فرق بن جائے گا، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کی ذمہ داری سب پر عائد ہوگی۔
قرآن مجید میں بڑوں کی چھوٹوں سے دوستی اور قربت کے بڑے زبردست مناظر ہیں۔ اور ہر منظر میں ان بڑوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اپنے چھوٹوں سے دور ہوگئے، اتنا دور کہ ان کو اس کی خبر نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے کس سمت میں سفر کررہے ہیں، کن مشاغل میں بسر کررہے ہیں اور کیا خواب دیکھتے ہیں۔
ایک منظر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ہے جس میں ایک بوڑھا باپ ابراہیم اور ایک جوان بیٹا اسماعیل مل کر دیواریں اٹھارہے ہیں۔ دونوں میں فکری اور قلبی ہم آہنگی اتنی ہے کہ ایک ہی تمنا ایک ہی خواب اور لفظ بہ لفظ ایک ہی دعائیں
دوسرے منظر میں انصاف کی عدالت قائم ہے اور عدل وانصاف قائم کرنے کا سچا جذبہ لے کر ایک ادھیڑ عمر باپ داوود اور ایک جوان بیٹا سلیمان سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ صحیح رائے تک بیٹا پہونچ جاتا ہے، اور باپ اس کی بات کو خوش دلی سے قبول کرلیتا ہے، کیونکہ دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں تھا، بلکہ دونوں مل کر حق تک رسائی کے لئے کوشش کررہے تھے، اپنی ذہانت کا سکہ نہیں جمانا تها بلکہ منصفانہ فیصلے تک پہونچنا تھا، ہدف اکیلے جیتنا نہیں تھا، بلکہ مل کر جیتنا تھا۔
ایک تیسرے منظر میں بیٹا یوسف خواب دیکھتا ہے اور سب سے پہلے اپنے ابا حضور کے ساتھ شیئر کرتا ہے، ابا حضور خواب کو غور سے سنتے ہیں، اور خواب کی عملی تعبیر کے سلسلے میں فکر مند ہوجاتے ہیں۔
ایک چوتھے منظر میں باپ ابراہیم خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کررہا ہے، باپ اپنا خواب بلا جھجک اپنے بیٹے کو سناتا ہے اور بیٹا اس خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی گردن پیش کردیتا ہے۔
ایک پانچوے منظر میں ماں اپنے بیٹے موسی کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دیتی ہے، اور پھر پورا مشن اپنی بیٹی کے حوالے کردیتی ہے، جو بہترین طریقے سے اس مشن کو انجام دیتی ہے۔ ماں بیٹی پر اعتماد کرتی ہے، اور بیٹی اس اعتماد کی لاج رکھ لیتی ہے، اور ماں کی توقعات پر پوری اترتی ہے۔
لازم ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہو کہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے بڑے بڑے کام انجام دیں، بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر گمبیر ترین مسائل کے حل تلاش کریں، بڑے اپنے خوابوں میں چھوٹوں کو شریک کریں، اور چھوٹے اپنے خواب بڑوں کو بنا جھجک بتا سکیں۔ نصیحت کا موقعہ آئے تو بڑے چھوٹوں کو نصیحت بھی کریں، لیکن اس طرح جیسے لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے سمجھداری، حکمت، محبت اور پیار بھری نصیحتیں۔ کہ کوئی نصیحت بار خاطر نہ ہو۔ چھوٹے بھی موقعہ آنے پر بڑوں کو ضرور نصیحت کریں لیکن احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس طرح بیٹے ابراہیم نے اپنے باپ کو نصیحت کی تھی احترام اور خیرخواہی کا پیکر بن کر۔
میرے پاس کتنے ہی کروڑ پتی لوگ اپنے جوان بچوں کے بگڑے ہوئے کیس لے کر آئے، مجھے ان کی اس زندگی پر رونا آیا جو انہوں نے بچوں سے دور دولت کمانے کی دھن میں گزار دی، وہ بچوں کے لئے دولت کماتے رہے، مگر خود بچوں کو کھوتے رہے، دولت بچوں کے ہاتھ لگی اور بچے شیطان کے ہاتھ لگے، ان بیچاروں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے خالی لرزتے ہاتھ اور حسرت زدہ ٹوٹے دل کے۔ ان سب کے برے حال کی ایک بڑی وجہ تھی بچوں سے دوری، میری مراد جگہ کی دوری نہیں ہے، کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو گھر میں رہ کر دور ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ہزاروں میل دور رہ کر بھی قریب ہوتے ہیں۔
اکثر بڑوں کو گلہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ چھوٹے ان کی پسند کا خیال نہیں کرتے، وہ رشتہ بھی اپنی پسند کا، پیشہ بھی اپنی پسند کا اور لائف اسٹائل بھی اپنی پسند کا چاہتے ہیں۔ میں چھوٹوں سے تو یہی کہوں گا کہ بڑوں کی پسند کا احترام تم کو ممکنہ حد تک کرنا چاہئے، ساتھ ہی بڑوں سے بھی ادب سے کہوں گا، کہ وقت آنے پر اپنی پسند کو ان پر زبردستی تھوپنے کی اور نہیں ماننے پر ناراض ہوجانے کی بجائے، آپ بچپن سے ہی پسند کے وہ اعلی معیارات ان کی شخصیت میں بسا دیجئے، کہ تا حیات وہ ان اعلی معیارات کو رہنما بنائیں اور آپ کو کسی کشمکش کی ضرورت ہی نہیں پڑے۔ اور یہ تبھی ہوسکے گا جب آپ چھوٹوں کے ہم درد، ہم راز اور زندگی کے ہم سفر بلکہ خوابوں کے ہم نظر بن جائیں گے۔
میں نے تربیت کے سلسلے میں کڑی آمریت سے زیادہ نقصان دہ، نری ناصحیت سے زیادہ بے اثر اور با مقصد دوستی سے زیادہ مفید طریقہ کوئی نہیں پایا۔