گھر کو عزت کا گہوارہ بنائیں

گھر کو عزت کا گہوارہ بنائیں
محی الدین غازی
گھر کو سکون وراحت کی جگہ ہونا چاہئے، لیکن گھر میں رہتے ہوئے ہر شخص ہر وقت سکون، راحت اور خوشی محسوس کرے، یہ ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی ہے کہ گھر میں ہر کسی کو ہر وقت عزت واحترام ملے۔ اور کسی کو کبھی اپنی بے عزتی کا احساس نہیں ہو۔ ہوسکتا ہے آپ گھر کے ہر فرد کو خوشی نہیں دے سکیں، لیکن گھر کے ہر فرد کو عزت واحترام ضرور دے سکتے ہیں۔
گھر کو عزت واحترام کا گہوارہ ہونا چاہئے۔ گھر کے باہر عزت واحترام کو ٹھیس پہونچانے والے بہت سے واقعات پیش آسکتے ہیں، لیکن گھر کے اندرکا ماحول ایسا عزت بخش ہو کہ آدمی گھر میں آکر محسوس کرے کہ اس کا کھویا ہوا وقار اسے واپس مل گیا، اور اس کی عزت واحترام کو لگنے والے زخم مندمل ہوگئے۔
مدد کرنا بہت اچھی بات ہے، لیکن کسی کی مدد کر کے اسے بے عزت کردینے سے بہت اچھا یہ ہے کہ اس کی مدد نہیں کی جائے اور اس کی عزت واحترام کو محفوظ رہنے دیا جائے۔ اللہ ضرورت مندوں کے لئے مدد کے بہت سے راستے کھول دیتا ہے، لیکن عزت واحترام کا جو رشتہ آپ کے اور دوسرے کے درمیان ہے، اس رشتے کی حفاظت آپ کو اور صرف آپ کو کرنی ہے۔ اگر اللہ کے فضل سے آپ کو اپنے گھر کے کسی فرد کی مدد کا موقعہ مل جائے تو اسے ایک راز کی طرح اپنے پاس محفوظ رکھئے، اور اس کا چرچا مت ہونے دیجئے۔ اس طرح آپ اس کی دوہری مدد کریں گے، اس کی ضرورت بھی پوری کردیں گے، اور اس کی عزت کا خیال بھی رکھ لیں گے۔
اگراجنبی شخص کی مدد چپکے سے کرنا افضل ہے، تو گھر کے کسی فرد کی مدد کو پوشیدہ رکھنا اور بھی زیادہ افضل ہے۔ اجنبی شخص کی مدد کا اعلان بھی ہوجائے تو اس کا منفی اثر کم ہی ظاہر ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے، ان کی مدد کا اعلان کرنے کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انہیں اپنی بے عزتی کا احساس ہمیشہ ستاتا رہتا ہے۔
عزت واحترام کا ماحول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سب لوگ احترام کرنے کے عمل میں اپنا پورا کردار ادا کریں۔ بہنوں کی یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ ان کے بھائی ان کے شوہروں سے عزت کے ساتھ پیش آئیں، لیکن اس کے لئے انہیں اپنے شوہروں کی عزت بھی کرنی ہوگی، اپنے بھائیوں کی عزت بھی کرنی ہوگی، اور اپنے بھائیوں کی بیویوں کی بھی عزت کرنی ہوگی۔ اسی طرح بھائی بھی اپنی بیویوں کی عزت کریں، اپنی بہنوں کی عزت کریں اور اپنی بہنوں کے شوہروں کی عزت بھی کریں، تاکہ سب لوگ عزت کے ماحول کا لطف اٹھاسکیں۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کی عزت کریں، اپنے گھر والوں کی عزت بھی کریں اور ایک دوسرے کے گھر والوں کی عزت بھی کریں، اس طرح دونوں خاندانوں کے افراد کو احساس ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے معزز رشتے دار ہیں۔
صحیح معنوں میں عزت کرنا یہ ہے کہ آپ جس کی عزت کریں، اس کے اپنوں کی عزت بھی کریں۔ اگر آپ اپنے داماد کی عزت کرتے ہیں، اور اس کے گھر والوں کی عزت نہیں کرتے ہیں، تو یہ داماد کی بے عزتی کرنا ہے۔ اگر آپ اپنی بیوی کو اپنی پلکوں پر بٹھاتے ہیں، اور اس کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں، لیکن اس کے گھر والوں کی عزت نہیں کرتے تو آپ اپنی بیوی کا دل نہیں جیت سکتے ہیں۔ اگر بیوی اپنے شوہر کی عزت کرتی ہے اور دل وجان اس پر نچھاور کرتی ہے، مگر اس کے گھر والوں کی عزت کا خیال نہیں رکھتی تو حقیقت میں وہ اپنے شوہر کی عزت نہیں کرتی ہے۔
بچوں کی بہترین تربیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہیں گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کا احترام کرنے کی تربیت دی جائے۔ زبان سے احترام کرنے کی بڑی اہمیت ہے، لیکن اس سے زیادہ اہمیت اس کی ہے کہ دل میں عزت واحترام کو صحیح مقام ملے۔ زبان کی اصلاح وتربیت کے ساتھ ساتھ دل ودماغ کی اصلاح وتربیت بہت ضروری ہے۔
بہت سے لوگ شکایتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ہوتا یہ ہے کہ انہیں خاندان کے کچھ لوگوں سے شکایت ہوتی ہے، اور وہ اپنے دل کی تسکین کے لئے جہاں موقعہ ملتا ہے شکایتوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، جن لوگوں کو شکایتیں سننے میں مزا آتا ہے وہ مزے لے لے کر سنتے ہیں، بعض لوگ تو ایک ایک شکایت سو سو بار سناتے ہیں، اور سننے والے بھی ہر بار شوق سے سنتے ہیں، ان شکایتوں کے سننے اور سنانے سے گھر کا حسن تو غارت ہوتا ہی ہے، اس کا بہت خراب اثر پڑتا ہے ان بچوں پر جن کے معصوم ذہنوں پر یہ باتیں نقش ہوتی جاتی ہیں۔ غیبت وشکایت سن سن کرخاندان کے بہت سے افراد ان بچوں کے ذہنوں میں اپنا وقار کھودیتے ہیں، خاندان کے بڑے بزرگ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود ان کے لئے نمونہ نہیں رہ جاتے، مزید یہ کہ جب بڑوں کی برائیاں وہ بڑوں کی زبان سے سنتے ہیں، تو برائیوں سے نفرت ان کے دل سے نکلتی جاتی ہے، اور وہ برائیاں دھیرے دھیرے ان کے اندر راہ پانے لگتی ہیں۔
پیٹھ پیچھے برائی کرنے میں نفس کو جتنا مزا آتا ہے، پیٹھ پیچھے تعریفیں کرنا اتنا ہی اس پر شاق گزرتا ہے۔ بہت مثالی ہوتا ہے وہ گھر جہاں لوگ جب بیٹھتے ہیں تو اپنوں پرایوں کی خوبیاں بیان کرتے ہیں، اور ان کی اچھائیوں کے تذکرے کرتے ہیں، جب گھر میں بچوں کے سامنے ان کے بڑوں کی خوبیوں اور اچھائیوں کے چرچے ہوتے ہیں، تو ان کے دلوں میں اپنے بڑوں کے لئے عزت واحترام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اور ان کی خوبیاں اور اچھائیاں ان کے لئے مشعل راہ بنتی ہیں۔
جن لوگوں کے اندر صرف خوبیاں ہوں، اور خامیاں نہیں ہوں ان کا احترام کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی خامیاں اور عیب آپ کو معلوم ہوں، آپ ان خامیوں اور عیبوں کو نظر انداز کرکے ان کا احترام باقی رکھیں۔ بہت اچھا ہے کہ گھر کے لوگوں کی خرابیوں پر پردہ ڈالا جائے، اس لئے کہ گھر میں عزت واحترام کا ماحول برقرار رہے، اور اس لئے بھی کہ گھر کا حسن وجمال باقی رہے۔
حدیث پاک میں بڑوں کے احترام اور بچوں سے شفقت کی تعلیم دی گئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کو شفقت تودی جائے پر ان کا احترام نہیں کیا جائے، بڑوں کی طرح بچوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں، اور جذبات اپنا احترام مانگتے ہیں۔ جس کے دل میں بچپن سے عزت واحترام کی قدروقیمت بیٹھ جائے، وہ زندگی بھر اس متاع بے بہا کی حفاظت کرتا ہے۔ جب ہم بچوں سے بڑوں کا احترام کرواتے ہیں، تو وہ احترام کرنے کے عادی تو ہوجاتے ہیں، لیکن احترام کی قدروقیمت سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ جب ہم بچوں کو عزت واحترام سے نوازتے ہیں تو وہ عزت واحترام کی قدروقیمت سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔
بہت پیارے لگتے ہیں وہ بچے جو اپنے نانیہال والوں کا اسی طرح احترام کرتے ہیں، جس طرح اپنے دادیہال والوں کا احترام کرتے ہیں، جن کی نظر میں چچا اور پھوپھی بھی محترم ہوتے ہیں، اور خالہ اور ماموں بھی محترم ہوتے ہیں، جو اپنے نانا نانی کی بھی عزت کرتے ہیں اور دادا دادی کی بھی عزت کرتے ہیں۔ ایسے صاف دل والے بچے ان ماں باپ کے آغوش میں پلتے ہیں جو دل کے صاف ہوتے ہیں، جن کے دلوں میں کسی کے لئے کدورت نہیں ہوتی ہے، اور اسی لئے وہ اپنے بچوں میں کسی طرح کی کدورت منتقل نہیں کرتے ہیں۔ اپنے گھر اور اپنے بچوں کو صاف ستھرا دیکھنے کے لئے اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں