تحریک کا ستون کون بنے

تحریک کا ستون کون بنے
ترجمہ: محی الدین غازی
(تحریکوں میں اس پر گفتگو زیادہ ہوتی ہے کہ امارت کا اہل کون ہے، لیکن ایسے افراد کی ضرورت پر گفتگو کم ہوتی ہے جو تحریک کا ستون بننے کی ذمہ داری قبول کریں۔ عظیم تحریکی مفکر محمد احمد راشد کا ایک تحریک افروز پیغام پیش ہے)
اسلامی تحریک پر گہری نگاہ ڈالنے سے احساس ہوتا ہے کہ ایک تحریکی کارکن ہونے کی حیثیت سے ہمیں شدید ضرورت ہے ایک محبت سے لبریز آغوش کی جو ہمیں سمالے، ایک کشادہ سینے کی جو ہماری پریشانیوں کو سمیٹ لے، ایک سوز مند دل کی جو ہماری فکر میں تڑپ اٹھے، ایک شفقت بھرے ہاتھ کی جو ہمارے کاندھوں کو تھپکی دیتا رہے، ایک نگہبان آنکھ کی جو ہماری چال پر نظر رکھے، ایک اعلی دماغ کی جو ہماری سمت سفر درست کرتا رہے۔
ہمیں ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم غلطی کریں تو ہم سے روبرو ہو کر مسکرادے، ہم ناکامی سے دوچار ہوں تو دوبارہ کوشش کرنے پر اکسادے، اور ہم پھسلنے لگیں تو ہمارا ہاتھ تھام لے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم مشکل میں پڑیں تو وہ آسانیاں سجھائے، ہم مایوسی کے شکار ہوں تو منزل کی نوید سنائے، ہم پریشان ہوجائیں تو تسلی دے اور ہم جلدبازی کرنے لگیں تو صبر کا درس دے۔
ضرورت ہے اس کی جو غور سے سننے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے انکار کردینے کی جلدی رہتی ہو۔ اس کی جو تعریف کرنے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے تنقید کرنے کی جلدی رہتی ہو۔ اس کی جو نظر انداز کرنے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے ملامت کرنے کی جلدی رہتی ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو پیار سے سمجھائے، نرمی سے سکھائے، محبت سے اکسائے، جس کی دعوت حکیمانہ ہو، اور جس کی تربیت مشفقانہ ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمارے دلوں کو نصب العین پر جمع کردے، اور ہماری کوششوں کا رخ مقصد کی طرف مرکوز کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو خود غرضی سے اوپر اٹھ جائے، اور جسے اپنی تعریف سننے کا شوق نہ ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو ہماری صلاحیتوں کو پہچانے، توجہ دے کر انہیں پروان چڑھائے، اس کی نہیں جو انہیں کچل دے اور دفن کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو ہماری توانائیوں سے واقف ہوسکے، انہیں متحرک کردے، اور انہیں صحیح جگہ لگائے۔ اس کی نہیں جو انہیں زنگ آلود کردے اور انہیں بجھادے۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمارے امکانات پر بھروسہ کرے، اور ہماری قوتوں پر اطمینان رکھے، اور ہمیں یہ احساس دلائے کہ ہم کچھ کردکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمیں کمر بستہ کرے ، ہمارے حوصلے بلند کرے، اور ہماری کمزوری کو قوت میں بدل دے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہمیں ٹھوکر لگے تو ہمارا راستہ ہموار کردے، سامنے اندھیرا چھا جائے تو روشنی کردے، اور حیرانی سے دوچار ہوں تو ہمیں ہماری منزل دکھادے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم رک جائیں تو ہمیں آگے بڑھائے، جمود کا شکار ہوجائیں تو تحریک پیدا کرے، بزدلی دکھائیں تو بہادری کا جام پلائے، اور بیٹھ جائیں تو ہاتھ پکڑ کے کھڑا کردے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم سوجائیں تو بیدار کردے، بھول جائیں تو یاد دلادے، غفلت کا شکار ہوجائیں تو خبردار کردے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم آگے بڑھنے میں دیر کریں تو وہ سب سے آگے بڑھ جائے، جب ہم خیر کے کاموں میں پیچھے ہٹنے لگیں تو وہ پیش قدمی کرے، اور جب ہم سستی کا شکار ہونے لگیں تو وہ اپنی رفتار تیز کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو اپنے علم سے ہمیں سیراب کرے، اپنی خیرخواہی سے ہمیں نوازتا رہے، اور اپنے تجربات سے ہمیں مالا مال کرے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جو ہماری پیش قدمیوں سے خوش ہو، ہماری فتوحات سے مسرور ہو، اور ہماری ترقیوں پر کھل اٹھے۔
ضرورت ہے ہمیں اس کی جس کی فکر میں تازہ ہوا کے جھونکے آتے رہیں، جس کے کاموں سے جدت وتخلیقیت نمایاں ہو، اور جس کی وسیع نگاہ تحریک کے ہر پہلو پر محیط ہو، وہ تحریک کے کسی پہلو کو کسی پہلو سے دبنے نہ دے، ہر پہلو کو بھرپور توجہ اور قرار واقعی مقام دے۔
چند لفظوں میں کہنا ہو تو کہوں:
 ہمیں ایک ستون کی ضرورت ہے، ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے، ایک سائے بان کی ضرورت ہے، ایک شفقت سے لبریز آغوش کی ضرورت ہے۔
اگر ایسا ہے، اور واقعی ایسا ہے تو میرے بھائی تم آگے بڑھ جاؤ، دیر مت کرو، تمہارے آس پاس سب منتظر ہیں، آغاز اپنی ذات سے کرو اور وہ آغوش جس کی سب آس لگائے بیٹھے ہیں وہ تم بن جاؤ۔

ایک تبصرہ شائع کریں