’سبحان ربی العظیم‘‘ کی انقلاب آفرینی

’سبحان ربی العظیم‘‘ کی انقلاب آفرینی
محی الدین غازی
(تسبیح کا مطلب ہے اللہ کی پاکی اور اس کی عظمت بیان کرنا۔ تسبیح کرتے ہوئے صرف چند الفاظ زبان سے ادا نہیں ہوتے ہیں، بلکہ دل ودماغ میں ایک زبردست قسم کا انقلاب آتا ہے، اور ایک مثالی شخصیت تیار ہوتی ہے، تسبیح والی شخصیت۔ اللہ اور اس کے رسول نے تسبیح کے لئے بہت سے بلیغ اور معنی خیز جملے سکھائے ہیں، سبحان ربی العظیم بھی تسبیح کی بہت خوب صورت تعبیر ہے، اسے اس تحریر میں تسبیح کی ایک مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے)
سبحان ربی العظیم کہہ کر ہم اپنےایمان ویقین کا اظہار کرتے ہیں، کہ اللہ کی ذات پاک ہے اور عظیم ہے، اللہ نے جو دین ہمارے لئے پسند کیا ہے، جو کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی ہے، اور جس رسول کو ہمارے لئے نمونہ بناکر بھیجا ہے، وہ سب کچھ پاک اور عظیم ہے۔ جو شخص اپنی پوری زندگی اللہ کے رنگ میں رنگنے کا فیصلہ کرچکا ہو، اس کے لئے ایمان ویقین کا یہ احساس بہت اطمینان بخش ہوتا ہے ۔
سبحان ربی العظیم بے پناہ خوشی اور تشکر کا اظہار ہے، خوشی اس بات کی کہ ہم نے اپنے پاک اور عظیم رب کو پالیا ہے، اور اس سے بندگی کا حسین رشتہ جوڑ لیا ہے۔ اس دنیا میں بہت سے انسان پاک وصاف اور باعزت بندگی سے محروم ہیں، وہ ایسی چیزوں اور ایسے لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں، جن کے سامنے جھک کر وہ سربلند نہیں ہوتے بلکہ ذلیل ورسوا ہوجاتے ہیں۔ عزت وسربلندی تو پاک اور عظیم رب کا بندہ بن جانے پر ملتی ہے، گمراہیوں کے ہجوم میں انسان کو پاک اور عظیم رب کی پہچان ہوجائے یہ اس کی سب سے بڑی خوش نصیبی اور کامیابی ہے۔ اس پر وہ اپنے رب کا جس قدر شکر ادا کرے اور اس کی جتنی زیادہ تسبیح کرے کم ہے۔
سبحان ربی العظیم ایک زبردست عہد ہے، کہ ہم اپنے پاک اور عظیم رب کے سلسلے میں کوئی ایسا خیال دل میں بسنے نہیں دیں گے جو اس کی پاکی اور عظمت کے منافی ہو، اور کوئی ایسا عقیدہ اختیار نہیں کریں گے، جس سے اس کی پاکی اور عظمت پر آنچ آتی ہو۔ تسبیح ایک زبردست کسوٹی ہے جس پر بہت سے خیالات اور نظریات کو پرکھا جاسکتا ہے۔ جب انسان تسبیح کی اس حقیقت سے غافل ہوجاتا ہے، تو وہ اللہ کے سلسلے میں غلط خیالات کو دل میں جگہ دے دیتا ہے، حالانکہ اس کے ہاتھ میں تسبیح کے دانے اور اس کی زبان پر تسبیح کے الفاظ ہوتے ہیں۔
سبحان ربی العظیم کہہ کر ہم یہ اظہار بھی کرتے ہیں کہ پاکی اور عظمت کی ہمارے دل میں بڑی قدرومنزلت ہے، یہ صفات ہمارے لئے بہت اہم صفات ہیں، اسی لئے ہم ہر آن خاص طور سے اللہ کی پاکی اور اس کی عظمت کا چرچا کرتے ہیں۔ ہم پاکی اور عظمت کو اللہ کی طرف منسوب کرکے اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ گویا ہمیں اللہ کے شایان شان بات کہنے کی توفیق مل گئی۔ پاکی اور عظمت کو اہم سمجھنا بہت خاص بات ہے۔ بہت فرق ہوتا ہے اس شخص کے فکروعمل میں جو پاکی اورعظمت کی قدر جانتا ہو، اور اس شخص کے فکروعمل میں جو اسے نہیں جانتا ہو۔ زندگی کا نقشہ بناتے ہوئے یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آپ کے نزدیک کن چیزوں کی قدروقیمت بہت زیادہ ہے۔
سبحان ربی العظیم کہنے سے انسان کے اندر اپنےاحتساب کی ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے، تسبیح کے الفاظ پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اے پاک اور عظیم رب کی تسبیح بیان کرنے والے ذرا اپنا جائزہ لے، کیا پاک اور عظیم رب کو ’’میرا رب‘‘ کہنے والے کے لئے زیبا ہے کہ وہ پاکی اور بلندی کے بہت اونچے مقام پرپہونچنے کی کوشش نہیں کرے؟ وہ اونچے سے اونچا مقام جہاں ایک انسان کو پہونچنا چاہئے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ تم اس پر توخوش ہو کہ تمہیں پاک اور عظیم رب مل گیا، لیکن اس کے لئے بے چین نہیں ہوتے کہ تم پاک اور عظیم رب کے پاک اور عظیم بندے بن جاؤ۔ اگر تم بھی ناپاکی اور ذلت وپستی سے اسی طرح مانوس ہو گئے ہو جس طرح جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے والے ہیں، اور اگر پاک اور عظیم رب سے نسبت کا تمہاری زندگی پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، تو یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔
سبحان ربی العظیم کے اندر تزکیہ نفس کا بڑا سامان ہے، جب ایک بندہ دل کی گہرائی سے بار بار یہ کہتا ہے کہ میرا رب پاک ہے، اور میرا رب عظیم ہے، تو تسبیح کے ہر جملے کے ساتھ اسے اپنے اندرون کو پاک کرنے اور بلندیوں کا سفر کرنے کے لئے تحریک اورمدد ملتی ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں یہ حقیقت سمجھاتی ہیں۔
سبحان ربی العظیم کہہ کر انسان کو بڑا حوصلہ ملتا ہے کہ دنیا میں گندگی اور پستی کو کتنا ہی زیادہ رواج مل چکا ہو، اور نجاست کتنی ہی زیادہ طاقت کے ساتھ انسانوں پر مسلط ہوچکی ہو، لیکن پاکی اور عظمت کا سفر شروع کرنے کے سارے مواقع ابھی بھی نہ صرف یہ کہ موجود ہیں، بلکہ انسان سے بہت قریب بھی ہیں۔ جب پا ک اور عظیم رب سے قربت اور اس کی تسبیح کی توفیق حاصل ہوگئی تو گویا پاکی کا سرچشمہ ہاتھ آگیا اور عظمت کی بلندیوں تک لے جانے والی شاہراہ مل گئی۔ جب انسان گندگی کے دلدل میں پھنسا ہو تو وہاں سے نکلنے کے لئے حوصلے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
سبحان ربی العظیم کہنے والے کی زندگی کو ہر پہلو سے پاکیزہ ہونا چاہئے، اس کا عقیدہ بالکل پاک وصاف ہو، اس کے خیالات میں بلا کی پاکیزگی ہو، اس کا کردار بے داغ ہو، وہ ہر وقت اپنے دامن کی حفاظت کرے، اور اگر کوئی داغ لگ جائے تو ندامت وتوبہ کے آنسووں سے فورا دھو ڈالے۔ شرم گاہ کی حفاظت کرے اور نگاہ نیچی رکھے۔ جس زبان سے سبحان ربی العظیم ادا ہورہا ہے وہ زبان ہر گندگی سے پاک رہے۔ اورجس دل میں سبحان ربی العظیم کے نغمے بسائے جارہے ہوں، اس دل کی پاکی اور طہارت کا خیال رکھا جائے۔
سبحان ربی العظیم، کہہ کر انسان بلندی اور عظمت کے سفر کا آغاز کرے، اور سبحان ربی العظیم کہتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھے، خیالات کی بلندی، عزائم اور حوصلوں کی بلندی، زندگی کے مقصد کی بلندی، زندگی کی دوڑ بھاگ اور محنت ومشقت کے اہداف کی بلندی، زندگی کی عمارت کی کرسی کی بلندی، کمانے میں بھی بلندی اور خرچ کرنے میں بھی بلندی، غرض زندگی کے ہر پہلو میں بلندی کی طرف جانے کا شوق نظر آئے۔
غرض تسبیح کا عمل اللہ کے حضور اپنی بندگی کے جذبات کا اظہار بھی ہے، اور اپنی شخصیت کی تعمیر کا وعدہ بھی ہے۔
اللہ کی قدرت وعظمت کے احساس سے دل جھکنے لگے، زندگی ہر عیب سے پاک ہونے لگے، اور قدم بلندیوں کی طرف بڑھنے لگیں، تو سمجھو کہ رکوع میں سبحان ربی العظیم، اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی کہنے کا حق ادا ہورہا ہے۔ اور نماز عشق واقعی ادا ہورہی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں