خلع خالص بیوی کا حق ہے

خلع خالص بیوی کا حق ہے
(خلع کے نظام کی اصلاح پر ایک تحریر)

محی الدین غازی

میرے ایک بزرگ دوست کافی عرصے سے بہت پریشان ہیں، ان کی بیٹی اپنے شوہر کی بعض عادتوں سے بیزار ہے، اور کسی طور ساتھ رہنا نہیں چاہتی، شوہر نہ تو اپنی اصلاح کے لئے تیار ہے، نہ طلاق دے رہا ہے اور نہ خلع کے لئے آمادہ ہے، دار القضا کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہم اس کے مجاز نہیں ہیں کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر نکاح فسخ کر سکیں۔

یہ صرف ایک کیس نہیں ہے، میرے علم میں مختلف شہروں کے ایسے کئی کیس ہیں، لڑکیاں کئی کئی سال سے میکے میں ہیں، اور شوہر انہیں علیحدگی کا پروانہ دینے کو تیار نہیں ہیں، وہ چونکہ نکاح کے بندھن میں بندھی ہوتی ہیں، اس لئے کہیں اور شادی کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں تشویش کا ایک پہلو تو ان خواتین کی حالت زار ہے، ان کی اس تکلیف دہ حالت پر خاموشی کسی طور مناسب نہیں ہے۔ تشویش کا دوسرا بہت خطرناک پہلو یہ ہے کہ کہیں یہ مسئلہ آگے چل کر شریعت کو نشانہ بنانے کا ایک اور بہانہ نہ بن جائے۔

اسلامی شریعت رحمت والی شریعت ہے، اس میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس سے زندگی عذاب بن جائے، اگر ایسا کہیں نظر آتا ہے، تو اس میں کہیں نہ کہیں ہمارے عمل کی کوتاہی یا اجتہاد کی غلطی ضرور کارفرما ہے، ایسے میں ہمیں اصلاح حال کے لئے فکرمند ہونا چاہئے، اس کا انتظار ہرگز نہیں کرنا چاہئے کہ جب بات حکومت اور عدالت کی سطح پر پہونچے، اور مسئلہ شدید بحران کی شکل اختیار کرلے تو ہم اس بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کریں۔

یہ بحث کبھی بھی زور پکڑ سکتی ہے کہ جب نکاح دو طرفہ معاہدہ ہے جو دونوں کی رضامندی سے وجود میں آیا ہے، تو اس معاہدہ کو توڑنے کا اختیار صرف مرد کے پاس کیوں ہے، یا تو یہ معاہدہ دونوں کی رضامندی سے ٹوٹے، یا پھر دونوں میں سے ہر کسی کو اسے توڑنے کا اختیار رہے، یہ کیسا انصاف ہے کہ مرد تو کسی بھی وجہ سے جب چاہے طلاق دے دے، اور عورت خلع کا حق بھی مرد کی مرضی کے بغیر استعمال نہیں کرسکے؟ اگر یہ بحث نہ بھی چھڑے تو بھی ظلم سے چشم پوشی کرنا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔

واضح ہو  کہ قانون کی غلط تشریح یا اس کا غلط استعمال ظلم کو جنم دیتا ہے، ظلم کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مرد معقول وجہ کے بغیر غلط ارادے سے طلاق دے دے، اور ظلم کی دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کے نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی اسے اپنی بیوی بناکر رکھے، یعنی خلع کے مطالبے کو پورا نہ کرے۔ افسوس ہمارے سماج میں دونوں طرح کے ظلم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ کثرت وقلت کا فیصلہ تو صحیح سروے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔

اسلامی لٹریچر میں خلع کو عورت کا حق بتایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ جس طرح مرد کے پاس طلاق کا راستہ ہے، اسی طرح عورت کے پاس خلع کا راستہ ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ طلاق کا راستہ تو مرد کے مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے، لیکن خلع کا راستہ بھی عملا مرد ہی کے کنٹرول میں رہتا ہے، کیونکہ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ عورت خلع کا راستہ اسی وقت اختیار کرسکتی ہے، جب کہ مرد اس کے لئے راضی ہو، اور اگر مرد راضی نہ ہو تو عورت کے لئے یہ راستہ بند ہوجاتا ہے۔

اس سلسلے میں اصلاح کے دو راستے ہیں اور دونوں پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

ایک راستہ یہ ہے کہ لوگوں کی اخلاقی سطح بلند کی جائے، اور انہیں یہ بتایا جائے کہ عورت اگر خلع کا مطالبہ کرے تو مرد کو نہ دینی لحاظ سے یہ زیب دیتا ہے اور نہ اخلاقی لحاظ سے کہ وہ اس مطالبے کے باوجود اسے اپنی بیوی بنائے رکھنے پر اصرار کرے۔ ایسی صورت میں اسے چاہئے کہ پہلے اپنی اصلاح پر توجہ دے، ساتھ ہی بیوی کو سمجھائے اور منائے، لیکن اگر وہ ساتھ رہنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہو تو جلد از جلد اس کے مطالبہ خلع کو پورا کردے۔ یہ اتباع سنت کا بھی تقاضا ہے اور مردانہ عزت ووقار کا بھی۔

یاد رکھئے، جب عورت خلع کا مطالبہ کردے، تو ٹال مٹول سے نقصان (Damage) میں اضافہ ہی ہوتا ہے، بات بڑھتی ہے، دونوں گھروں کی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوتی ہے، باہمی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آئندہ ملاپ کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور اگر خلع کے مطالبے کو مرد جلدی پورا کردے تو بات زیادہ نہیں بگڑتی ہے، اور اس کا بھی بہت امکان رہتا ہے کہ آئندہ دونوں نئے سرے سے نکاح پر آمادہ ہوجائیں۔ کیوں کہ خلع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی کے مطالبہ پر ایک طلاق دے۔ اس طلاق کے بعد رجوع کا موقع تو نہیں رہتا ہے، تاہم دونوں کی رضامندی سے نیا نکاح کبھی بھی ہوسکتا ہے۔

اصلاح حال کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ خود خلع کے نظام کو بہتر بنایا جائے، اور مرد کے لئے قانونی طور سے یہ لازمی قرار دیا جائے کہ اگر عورت سمجھانے بجھانے کے باوجود ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے، تو مرد لازمی طور سے خلع کے مطالبے کو قبول کرے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو قاضی یا اس کے قائم مقام شرعی نظام ورنہ تو پھر محلہ اور گاؤں کے لوگ خلع کو دونوں پر نافذ کردیں۔ شوہر کو اس کا مہر واپس دلادیں اور بیوی کو اس سے آزاد قرار دے دیں۔

اصلاح کی یہ کوشش ہمیں اپنی فقہی تاریخ میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جمہور کی رائے تو یہی تھی کہ خلع کے مطالبے کو قبول کرنا شوہر کے لئے ضروری نہیں ہے، تاہم علامہ ابن تیمیہ (ت ۷۲۸ھ) نے اس مسئلے پر اپنے تردد کو درج کیا، چنانچہ علامہ ابن تیمیہ کی طرف دونوں رائیں منسوب کی گئیں، اور اس کے بعد سے حنبلی فقہ میں دونوں رایوں کا تذکرہ ہونے لگا،  مشہور حنبلی فقیہ علامہ محمد بن مفلح المقدسی (ت ۷۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ شام کے کچھ فاضل مقدسی قاضیوں نے خلع کو لازم کیا۔ وَأَلْزَمَ بِهِ بَعْضُ حُكَّامِ الشَّامِ الْمَقَادِسَةُ الْفُضَلَاءُ۔ (الفروع)۔ غیر سنی فقہ میں اس کا تذکرہ ہمیں پانچویں صدی کے لٹریچر میں بھی ملتا ہے، ملاحظہ ہو ابوجعفر طوسی کی کتاب النھایۃ۔

سعودی عرب میں چونکہ حنبلی مسلک رائج ہے، اس لئے وہاں اس سلسلے میں بہت نمایاں پیش رفت ہوئی۔ وہاں کے پہلے مفتی شیخ محمد بن ابراھیم بن عبداللطیف آل الشیخ (ت ۱۳۸۹ھ) بعد ازاں مشہور زمانہ عالم ومفتی شیخ بن باز، اور شیخ ابن عثیمین اور پھر دوسرے اہل علم نے اس موقف کو بہت قوت کے ساتھ پیش کیا، ان اہل علم نے سنت رسول سے بھی استدلال کیا، اور عورت کے مطالبہ خلع کو نظرانداز کرنے کے بہت سے اضرار ومفاسد کا حوالہ بھی دیا۔ ان لوگوں نے اس پر بھی زور دیا کہ خلع کی کارروائی جلد مکمل کرلی جائے، اس کے لئے مہینوں اور برسوں عورت کو معلق نہیں رکھا جائے۔

خلع کے سلسلے میں مولانا مودودی بھی لکھتے ہیں: اگر عدالت میں معاملہ جائے، تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہوچکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہوجانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے تجویز کرے، اور اس فدیے کو قبول کرکے شوہر کو اسے طلاق دینا ہوگا۔ (تفہیم القرآن)

اس عبارت میں ایک اور نکتہ بہت اہم ہے، وہ یہ کہ عورت کس قدر متنفر ہے، اس کی تحقیق ہونی چاہئے، آیا اس قدر تنفر کے ساتھ اسے شوہر کے ساتھ رہنا چاہئے؟ اصل اہمیت اسی پہلو کی ہے۔ ممکن ہے تنفر کی وجہ بہت معمولی اور غیر اہم لگتی ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شوہر کی طرف سے کوئی کوتاہی یا بدسلوکی نہ ہو، لیکن اگر تنفر ناقابل برداشت ہو تو اس تنفر کا لحاظ کیا جائے گا۔ خلع کے ایک واقعہ میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے اسی طرح کی تحقیق کی، اور تنفر کی شدت دیکھ کر خلع کا حکم صادر کردیا۔ اب اگر عورت میکے میں جا کر بیٹھ گئی ہے، اور کسی طور واپسی کے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ علیحدگی کی خاطر مہر بھی لوٹانے کو تیار ہے، تو سمجھنا چاہئے کہ تنفر ناقابل برداشت حد تک پہونچ چکا ہے۔ اور اگر لڑکی کے ولی اور اہل خانہ بھی خلع کے مطالبہ کی تائید کریں تب تو یہ مطالبہ بہت زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے، اور اسے نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی ہے، کیونکہ یہ ایک عورت کے بجائے ایک خاندان کا مطالبہ ہوجاتا ہے۔

واضح رہنا چاہئے کہ عہد رسالت اور عہد خلافت میں ہمیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا ہے جس میں بیوی نے خلع مانگا ہو، اور اس کے باوجود اسے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونا پڑا ہو۔ خلع کے سلسلے میں مذکور واقعات میں اس پر تو گفتگو ملتی ہے کہ شوہر خلع کے عوض بیوی سے کس کس چیز کو واپس مانگے، لیکن خود بیوی کو زبردستی ساتھ رکھنے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ خلع خالص بیوی کا حق ہے، جس طرح طلاق خالص شوہر کا حق ہے، بیوی کو اس حق سے محروم کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔

عہد رسالت میں خلع کے واقعہ یا واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خلع کا عمل ایک بہت ہی آسان اور رواں (Smooth and Easy) عمل ہونا چاہئے، اسے پیچیدہ اور دشوار بنانا روح شریعت کے خلاف ہے، اس عمل کو طول دینا اور دنیا وآخرت کی وعیدیں سنا کر بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ یہ دین کے مزاج اور اس کی عظمت کے خلاف ہے کہ تنفر اور بیزاری کے باوجود دین کا حوالہ دے کر دونوں کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے۔ ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ اگر دونوں میں نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ علیحدگی ہوتی ہے، تو اللہ دونوں کے لئے خیر کی نئی راہیں پیدا کردے گا۔ {وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا} [النساء: 130]

تحریک کا ستون کون بنے

تحریک کا ستون کون بنے
ترجمہ: محی الدین غازی
(تحریکوں میں اس پر گفتگو زیادہ ہوتی ہے کہ امارت کا اہل کون ہے، لیکن ایسے افراد کی ضرورت پر گفتگو کم ہوتی ہے جو تحریک کا ستون بننے کی ذمہ داری قبول کریں۔ عظیم تحریکی مفکر محمد احمد راشد کا ایک تحریک افروز پیغام پیش ہے)
اسلامی تحریک پر گہری نگاہ ڈالنے سے احساس ہوتا ہے کہ ایک تحریکی کارکن ہونے کی حیثیت سے ہمیں شدید ضرورت ہے ایک محبت سے لبریز آغوش کی جو ہمیں سمالے، ایک کشادہ سینے کی جو ہماری پریشانیوں کو سمیٹ لے، ایک سوز مند دل کی جو ہماری فکر میں تڑپ اٹھے، ایک شفقت بھرے ہاتھ کی جو ہمارے کاندھوں کو تھپکی دیتا رہے، ایک نگہبان آنکھ کی جو ہماری چال پر نظر رکھے، ایک اعلی دماغ کی جو ہماری سمت سفر درست کرتا رہے۔
ہمیں ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم غلطی کریں تو ہم سے روبرو ہو کر مسکرادے، ہم ناکامی سے دوچار ہوں تو دوبارہ کوشش کرنے پر اکسادے، اور ہم پھسلنے لگیں تو ہمارا ہاتھ تھام لے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم مشکل میں پڑیں تو وہ آسانیاں سجھائے، ہم مایوسی کے شکار ہوں تو منزل کی نوید سنائے، ہم پریشان ہوجائیں تو تسلی دے اور ہم جلدبازی کرنے لگیں تو صبر کا درس دے۔
ضرورت ہے اس کی جو غور سے سننے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے انکار کردینے کی جلدی رہتی ہو۔ اس کی جو تعریف کرنے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے تنقید کرنے کی جلدی رہتی ہو۔ اس کی جو نظر انداز کرنے کا ہنر جانتا ہو، اس کی نہیں جسے ملامت کرنے کی جلدی رہتی ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو پیار سے سمجھائے، نرمی سے سکھائے، محبت سے اکسائے، جس کی دعوت حکیمانہ ہو، اور جس کی تربیت مشفقانہ ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمارے دلوں کو نصب العین پر جمع کردے، اور ہماری کوششوں کا رخ مقصد کی طرف مرکوز کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو خود غرضی سے اوپر اٹھ جائے، اور جسے اپنی تعریف سننے کا شوق نہ ہو۔
ضرورت ہے اس کی جو ہماری صلاحیتوں کو پہچانے، توجہ دے کر انہیں پروان چڑھائے، اس کی نہیں جو انہیں کچل دے اور دفن کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو ہماری توانائیوں سے واقف ہوسکے، انہیں متحرک کردے، اور انہیں صحیح جگہ لگائے۔ اس کی نہیں جو انہیں زنگ آلود کردے اور انہیں بجھادے۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمارے امکانات پر بھروسہ کرے، اور ہماری قوتوں پر اطمینان رکھے، اور ہمیں یہ احساس دلائے کہ ہم کچھ کردکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
ضرورت ہے اس کی جو ہمیں کمر بستہ کرے ، ہمارے حوصلے بلند کرے، اور ہماری کمزوری کو قوت میں بدل دے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہمیں ٹھوکر لگے تو ہمارا راستہ ہموار کردے، سامنے اندھیرا چھا جائے تو روشنی کردے، اور حیرانی سے دوچار ہوں تو ہمیں ہماری منزل دکھادے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم رک جائیں تو ہمیں آگے بڑھائے، جمود کا شکار ہوجائیں تو تحریک پیدا کرے، بزدلی دکھائیں تو بہادری کا جام پلائے، اور بیٹھ جائیں تو ہاتھ پکڑ کے کھڑا کردے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم سوجائیں تو بیدار کردے، بھول جائیں تو یاد دلادے، غفلت کا شکار ہوجائیں تو خبردار کردے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جب ہم آگے بڑھنے میں دیر کریں تو وہ سب سے آگے بڑھ جائے، جب ہم خیر کے کاموں میں پیچھے ہٹنے لگیں تو وہ پیش قدمی کرے، اور جب ہم سستی کا شکار ہونے لگیں تو وہ اپنی رفتار تیز کردے۔
ضرورت ہے اس کی جو اپنے علم سے ہمیں سیراب کرے، اپنی خیرخواہی سے ہمیں نوازتا رہے، اور اپنے تجربات سے ہمیں مالا مال کرے۔
ضرورت ہے اس کی کہ جو ہماری پیش قدمیوں سے خوش ہو، ہماری فتوحات سے مسرور ہو، اور ہماری ترقیوں پر کھل اٹھے۔
ضرورت ہے ہمیں اس کی جس کی فکر میں تازہ ہوا کے جھونکے آتے رہیں، جس کے کاموں سے جدت وتخلیقیت نمایاں ہو، اور جس کی وسیع نگاہ تحریک کے ہر پہلو پر محیط ہو، وہ تحریک کے کسی پہلو کو کسی پہلو سے دبنے نہ دے، ہر پہلو کو بھرپور توجہ اور قرار واقعی مقام دے۔
چند لفظوں میں کہنا ہو تو کہوں:
 ہمیں ایک ستون کی ضرورت ہے، ایک پناہ گاہ کی ضرورت ہے، ایک سائے بان کی ضرورت ہے، ایک شفقت سے لبریز آغوش کی ضرورت ہے۔
اگر ایسا ہے، اور واقعی ایسا ہے تو میرے بھائی تم آگے بڑھ جاؤ، دیر مت کرو، تمہارے آس پاس سب منتظر ہیں، آغاز اپنی ذات سے کرو اور وہ آغوش جس کی سب آس لگائے بیٹھے ہیں وہ تم بن جاؤ۔

’سبحان ربی العظیم‘‘ کی انقلاب آفرینی

’سبحان ربی العظیم‘‘ کی انقلاب آفرینی
محی الدین غازی
(تسبیح کا مطلب ہے اللہ کی پاکی اور اس کی عظمت بیان کرنا۔ تسبیح کرتے ہوئے صرف چند الفاظ زبان سے ادا نہیں ہوتے ہیں، بلکہ دل ودماغ میں ایک زبردست قسم کا انقلاب آتا ہے، اور ایک مثالی شخصیت تیار ہوتی ہے، تسبیح والی شخصیت۔ اللہ اور اس کے رسول نے تسبیح کے لئے بہت سے بلیغ اور معنی خیز جملے سکھائے ہیں، سبحان ربی العظیم بھی تسبیح کی بہت خوب صورت تعبیر ہے، اسے اس تحریر میں تسبیح کی ایک مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے)
سبحان ربی العظیم کہہ کر ہم اپنےایمان ویقین کا اظہار کرتے ہیں، کہ اللہ کی ذات پاک ہے اور عظیم ہے، اللہ نے جو دین ہمارے لئے پسند کیا ہے، جو کتاب ہماری ہدایت کے لئے بھیجی ہے، اور جس رسول کو ہمارے لئے نمونہ بناکر بھیجا ہے، وہ سب کچھ پاک اور عظیم ہے۔ جو شخص اپنی پوری زندگی اللہ کے رنگ میں رنگنے کا فیصلہ کرچکا ہو، اس کے لئے ایمان ویقین کا یہ احساس بہت اطمینان بخش ہوتا ہے ۔
سبحان ربی العظیم بے پناہ خوشی اور تشکر کا اظہار ہے، خوشی اس بات کی کہ ہم نے اپنے پاک اور عظیم رب کو پالیا ہے، اور اس سے بندگی کا حسین رشتہ جوڑ لیا ہے۔ اس دنیا میں بہت سے انسان پاک وصاف اور باعزت بندگی سے محروم ہیں، وہ ایسی چیزوں اور ایسے لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں، جن کے سامنے جھک کر وہ سربلند نہیں ہوتے بلکہ ذلیل ورسوا ہوجاتے ہیں۔ عزت وسربلندی تو پاک اور عظیم رب کا بندہ بن جانے پر ملتی ہے، گمراہیوں کے ہجوم میں انسان کو پاک اور عظیم رب کی پہچان ہوجائے یہ اس کی سب سے بڑی خوش نصیبی اور کامیابی ہے۔ اس پر وہ اپنے رب کا جس قدر شکر ادا کرے اور اس کی جتنی زیادہ تسبیح کرے کم ہے۔
سبحان ربی العظیم ایک زبردست عہد ہے، کہ ہم اپنے پاک اور عظیم رب کے سلسلے میں کوئی ایسا خیال دل میں بسنے نہیں دیں گے جو اس کی پاکی اور عظمت کے منافی ہو، اور کوئی ایسا عقیدہ اختیار نہیں کریں گے، جس سے اس کی پاکی اور عظمت پر آنچ آتی ہو۔ تسبیح ایک زبردست کسوٹی ہے جس پر بہت سے خیالات اور نظریات کو پرکھا جاسکتا ہے۔ جب انسان تسبیح کی اس حقیقت سے غافل ہوجاتا ہے، تو وہ اللہ کے سلسلے میں غلط خیالات کو دل میں جگہ دے دیتا ہے، حالانکہ اس کے ہاتھ میں تسبیح کے دانے اور اس کی زبان پر تسبیح کے الفاظ ہوتے ہیں۔
سبحان ربی العظیم کہہ کر ہم یہ اظہار بھی کرتے ہیں کہ پاکی اور عظمت کی ہمارے دل میں بڑی قدرومنزلت ہے، یہ صفات ہمارے لئے بہت اہم صفات ہیں، اسی لئے ہم ہر آن خاص طور سے اللہ کی پاکی اور اس کی عظمت کا چرچا کرتے ہیں۔ ہم پاکی اور عظمت کو اللہ کی طرف منسوب کرکے اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ گویا ہمیں اللہ کے شایان شان بات کہنے کی توفیق مل گئی۔ پاکی اور عظمت کو اہم سمجھنا بہت خاص بات ہے۔ بہت فرق ہوتا ہے اس شخص کے فکروعمل میں جو پاکی اورعظمت کی قدر جانتا ہو، اور اس شخص کے فکروعمل میں جو اسے نہیں جانتا ہو۔ زندگی کا نقشہ بناتے ہوئے یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آپ کے نزدیک کن چیزوں کی قدروقیمت بہت زیادہ ہے۔
سبحان ربی العظیم کہنے سے انسان کے اندر اپنےاحتساب کی ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے، تسبیح کے الفاظ پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اے پاک اور عظیم رب کی تسبیح بیان کرنے والے ذرا اپنا جائزہ لے، کیا پاک اور عظیم رب کو ’’میرا رب‘‘ کہنے والے کے لئے زیبا ہے کہ وہ پاکی اور بلندی کے بہت اونچے مقام پرپہونچنے کی کوشش نہیں کرے؟ وہ اونچے سے اونچا مقام جہاں ایک انسان کو پہونچنا چاہئے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ تم اس پر توخوش ہو کہ تمہیں پاک اور عظیم رب مل گیا، لیکن اس کے لئے بے چین نہیں ہوتے کہ تم پاک اور عظیم رب کے پاک اور عظیم بندے بن جاؤ۔ اگر تم بھی ناپاکی اور ذلت وپستی سے اسی طرح مانوس ہو گئے ہو جس طرح جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے والے ہیں، اور اگر پاک اور عظیم رب سے نسبت کا تمہاری زندگی پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، تو یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے۔
سبحان ربی العظیم کے اندر تزکیہ نفس کا بڑا سامان ہے، جب ایک بندہ دل کی گہرائی سے بار بار یہ کہتا ہے کہ میرا رب پاک ہے، اور میرا رب عظیم ہے، تو تسبیح کے ہر جملے کے ساتھ اسے اپنے اندرون کو پاک کرنے اور بلندیوں کا سفر کرنے کے لئے تحریک اورمدد ملتی ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں یہ حقیقت سمجھاتی ہیں۔
سبحان ربی العظیم کہہ کر انسان کو بڑا حوصلہ ملتا ہے کہ دنیا میں گندگی اور پستی کو کتنا ہی زیادہ رواج مل چکا ہو، اور نجاست کتنی ہی زیادہ طاقت کے ساتھ انسانوں پر مسلط ہوچکی ہو، لیکن پاکی اور عظمت کا سفر شروع کرنے کے سارے مواقع ابھی بھی نہ صرف یہ کہ موجود ہیں، بلکہ انسان سے بہت قریب بھی ہیں۔ جب پا ک اور عظیم رب سے قربت اور اس کی تسبیح کی توفیق حاصل ہوگئی تو گویا پاکی کا سرچشمہ ہاتھ آگیا اور عظمت کی بلندیوں تک لے جانے والی شاہراہ مل گئی۔ جب انسان گندگی کے دلدل میں پھنسا ہو تو وہاں سے نکلنے کے لئے حوصلے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔
سبحان ربی العظیم کہنے والے کی زندگی کو ہر پہلو سے پاکیزہ ہونا چاہئے، اس کا عقیدہ بالکل پاک وصاف ہو، اس کے خیالات میں بلا کی پاکیزگی ہو، اس کا کردار بے داغ ہو، وہ ہر وقت اپنے دامن کی حفاظت کرے، اور اگر کوئی داغ لگ جائے تو ندامت وتوبہ کے آنسووں سے فورا دھو ڈالے۔ شرم گاہ کی حفاظت کرے اور نگاہ نیچی رکھے۔ جس زبان سے سبحان ربی العظیم ادا ہورہا ہے وہ زبان ہر گندگی سے پاک رہے۔ اورجس دل میں سبحان ربی العظیم کے نغمے بسائے جارہے ہوں، اس دل کی پاکی اور طہارت کا خیال رکھا جائے۔
سبحان ربی العظیم، کہہ کر انسان بلندی اور عظمت کے سفر کا آغاز کرے، اور سبحان ربی العظیم کہتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھے، خیالات کی بلندی، عزائم اور حوصلوں کی بلندی، زندگی کے مقصد کی بلندی، زندگی کی دوڑ بھاگ اور محنت ومشقت کے اہداف کی بلندی، زندگی کی عمارت کی کرسی کی بلندی، کمانے میں بھی بلندی اور خرچ کرنے میں بھی بلندی، غرض زندگی کے ہر پہلو میں بلندی کی طرف جانے کا شوق نظر آئے۔
غرض تسبیح کا عمل اللہ کے حضور اپنی بندگی کے جذبات کا اظہار بھی ہے، اور اپنی شخصیت کی تعمیر کا وعدہ بھی ہے۔
اللہ کی قدرت وعظمت کے احساس سے دل جھکنے لگے، زندگی ہر عیب سے پاک ہونے لگے، اور قدم بلندیوں کی طرف بڑھنے لگیں، تو سمجھو کہ رکوع میں سبحان ربی العظیم، اور سجدے میں سبحان ربی الاعلی کہنے کا حق ادا ہورہا ہے۔ اور نماز عشق واقعی ادا ہورہی ہے۔