طلاق کا طریقہ اور طلاق کا سلیقہ

طلاق کا طریقہ اور طلاق کا سلیقہ
محی الدین غازی
شوہر اور بیوی کا رشتہ وہ واحد رشتہ ہے جو انسانوں کے قائم کرنے سے قائم ہوتا ہے، اور انسانوں کے ختم کرنے سے ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک نے سب سے اہم رشتے کو انسانوں کے اختیار میں دے دیا ہے۔ اور یاد رہے کہ اس دنیا میں جو کام اللہ تعالی نے انسانوں کے حوالے کئے ہیں، وہی دراصل امتحان کے خاص سبجیکٹ ہیں، اس لئے نکاح اور نکاح کے بعد کی زندگی، طلاق اور طلاق کے بعد کی زندگی تقوی اور پرہیزگاری کے سائے میں گزارنی چاہئے، یہ سوچ کر کہ یہ رشتہ ایک بڑے امتحان کا خصوصی پرچہ ہے۔
طلاق کا ایک ہی طریقہ ہے جس کے صحیح ہونے پر سارے اہل علم کا اتفاق ہے، اور وہ یہ کہ جب ضرورت ہو تو آدمی ایک طلاق دے دے۔ ایک سے زیادہ طلاق کا خیال ہی دل میں نہ لائے، نہ ایک بار میں دو تین طلاق دے اور نہ وقفے وقفے سے دو تین طلاق دینے کے بارے میں سوچے۔
یہی طلاق کا صحیح طریقہ ہے، اور یہی طلاق کا احسن طریقہ ہے۔ تاہم اگر کوئی احسن طریقے والی طلاق بھی سلیقے سے نہیں بلکہ بے ڈھنگے طریقے سے دی جائے، تو پھر وہ احسن طلاق نہیں رہ جاتی، بلکہ بے سلیقہ طلاق ہوجاتی ہے۔ اور بے سلیقہ کام نہ خدا کو پسند ہے، اور نہ خلق خدا کو اچھا لگتا ہے۔
اگر طلاق دینے کا محرک عورت پر ظلم کرنا، اس کو ستانا، اور اس سے یا اس کے گھر والوں سے انتقام لینا ہو، یا اپنے کسی اور نفسانی جذبے کی تسکین کرنا ہو، تو اس طرح کے گھٹیا محرک کے ساتھ طلاق دینا ایک گھٹیا عمل کہہ لائے گا۔ خواہ طلاق دینے کا طریقہ فقہی لحاظ سے احسن ہی کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے اللہ کسی گھٹیا کام کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ظلم وزیادتی کی ہر صورت کو اللہ نے حرام کیا ہے، خواہ وہ ظلم طلاق دے کر کیوں نہ کیا جائے۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے اس دن سے جب ایسی طلاق کو آگ کا طوق بنا کر ظالم کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
طلاق دی جائے تو اس طرح کہ دینی اخوت پر آنچ نہ آئے، نفرت کی آگ نہ بھڑکے، نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہو اور نہ کسی کی حق تلفی ہو، بلکہ سخاوت اور فیاضی ہو، حکمت اور سمجھ داری ہو، طلاق دیتے ہوئے بھی اعلی اخلاق وکردار کا اظہار ہو۔ یہ سلیقے والی طلاق ہے۔
ہونا یہ چاہئے کہ طلاق سے پہلے دونوں کے گھروں سے ایک ایک سمجھ دار آدمی آگے بڑھے، دونوں سچے دل سے اللہ کی رضا کی خاطر معاملات سدھارنے کی کوشش کریں، جس کی طرف سے زیادتی کا ارتکاب ہورہا ہو، اسے زیادتی سے تائب ہونے کی صلاح دیں، جس کے اندر کمی ہے، اسے کمی کو دور کرنے کی ممکنہ راہ سجھائیں، اور اگر یقین ہوجائے کہ طلاق ہی واحد راستہ رہ گیا ہے، تو دونوں کو اور دونوں کے اہل خانہ کو خوش دلی سے نئی صورت حال قبول کرنے پر آمادہ کریں، تاکہ جب طلاق ہو تو ممکنہ حد تک نارمل حالات میں ہو، سب لوگ طلاق کے فیصلہ سے کسی حد تک مطمئن ہوچکے ہوں۔
طلاق دینے کا یہ طریقہ کہ واٹس اپ اور میسنجر کے ذریعہ دور بیٹھا شوہر طلاق لکھ کر بھیج دے، نہ کوئی افہام وتفہیم ہو، نہ دونوں خاندانوں کے بیچ گفت وشنید ہو، نہ اصلاح حال کی کوئی صورت تلاش کی جائے، نہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے اللہ سے دعا کی جائے، غرض نہ مشورہ ہو اور نہ استخارہ ہو، تو یہ طلاق قانون کی رو سے ہو تو جائے گی، لیکن طلاق دینے کا ایسا پھوہڑ انداز جس پر بیوی ہی نہیں ساری دنیا تھو تھو کرے، کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے پھوہڑ پن سے دونوں خاندانوں کو تو نقصان پہونچتا ہی ہے، لیکن سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اللہ کی شریعت بدنام ہوتی ہے، اور اللہ کے دشمنوں کو ہنسنے کا موقعہ ملتا ہے۔
اگر لڑکی کی طرف سے خلع کا مطالبہ ہو، تو لڑکے کو چاہئے کہ اپنی کمی یا کوتاہی دور کرنے کے لئے مناسب وقت مانگے، اور لڑکی تیار نہ ہو تو دونوں خاندانوں کے بزرگوں سے مشورہ کرکے ایک طلاق دے دے۔ یہ گھٹیا سوچ کہ میں اسے طلاق نہ دے کر یونہی لٹکائے رکھوں گا، زبردستی ساتھ رہنے پر مجبور کروں گا، یا خوب پریشان کرنے کے بعد طلاق دوں گا، ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ اس طرزعمل سے شریعت بدنام ہوتی ہے، اور جو کام شروع میں پرامن طریقے سے ہوسکتا تھا، وہ کافی ٹوٹ پھوٹ ہوجانے کے بعد ہوتا ہے۔
جدائی کا فیصلہ ہوجانے کی صورت میں دونوں کو چاہئے کہ مستقبل کے معاملات مثبت انداز سے باہمی مشورے کے ذریعہ طے کرلیں۔ خاص طور سے بچوں کے سلسلے میں ضد، انا اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اس رخ پر سوچیں کہ بچوں کے لئے مفید اور بے ضرر راستہ کیا ہوگا۔ اللہ پاک کا صاف حکم ہے کہ نہ ماں کوئی ایسا فیصلہ کرے جس سے بچے کو ضرر پہونچے، اور نہ باپ کوئی ایسا اقدام کرے جس سے بچے کو نقصان پہونچے، اپنی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر دونوں یہ عزم کریں کہ طلاق ہونے کے بعد بھی اللہ کی اس امانت کی بہترین دیکھ ریکھ کے لئے انہیں بہتر سے بہتر راستہ اختیار کرنا ہے۔
طلاق کے موقعہ پر شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی حد استطاعت سے بھی کچھ آگے بڑھ کر سخاوت وفیاضی کا ثبوت دے، اور رخصت کرتے ہوئے مطلقہ بیوی کو ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ دے کر رخصت کرے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس موقعہ پر جو فیاضی کا معاملہ کرے گا، اللہ اس سے خوش ہوگا اور اسے بہت نوازے گا۔ یاد رکھئے کہ اللہ کے نزدیک یہ سخاوت کرنے کا بہت ہی خاص موقعہ ہے۔
طلاق ہو یا خلع ہو، ایک مسلمان کی نظر میں دینی اخوت کا احترام باقی رہنا چاہئے، شوہر اور بیوی کی جدائی اس انداز سے نہ ہو کہ ان کے درمیان یا ان کے خاندانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا ہوجائے اور دینی اخوت پارہ پارہ ہوجائے۔ یہ صرف اسلامی معاشرے کا امتیاز ہے، کہ طلاق بھی ہوجائے اور معاشرے کے تمام اجزا سلامت بھی رہیں، کہیں کچھ ٹوٹ پھوٹ نہیں ہو۔ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امتیاز کی حفاظت کرے، خواہ اس کے لئے کچھ قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ایسی ہر قربانی کا اللہ کے یہاں ضرور بڑا اجر ملے گا۔
ہمارے معاشرے میں طلاق دینے والے مرد اور طلاق پانے والی عورت کو عیب دار سمجھا جاتا ہے، اس وجہ سے بھی طلاق ایک پیچیدہ کیس بن جاتا ہے۔ طلاق کو ایک داغ سمجھنے والی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ طلاق ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اب کہیں بھی نکاح اور نباہ کے قابل نہیں رہے۔ طلاق پانے والی عورتوں کا بہتر سے بہتر رشتہ فراہم کرنے کی خاطر معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ یہ بھی اسلامی معاشرے کا امتیاز ہے، جس کا بھرپور اظہار ہونا چاہئے، کہ ہر ہونے والی طلاق میں ایک نئے رشتے کی نوید ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں