’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘

’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘
 طلبہ مدارس کے لئے ایک رہنما کتاب
محی الدین غازی
حضرت عبد اللہ بن عباس کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے دس پندرہ سال کی عمر میں طے کرلیا تھا کہ انہیں بڑا عالم بننا ہے، اس فیصلے کے تیس سال بعد وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم قرار پائے۔
صحیح رہنمائی کے لئے یہ مناسب ترین وقت ہوتا ہے، لگ بھگ اسی عمر میں ایک جوہر شناس دانا نے امام شافعی کے دل میں فقیہ بننے کا شوق پیدا کردیا، اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ان کو فقہ میں امامت کا مقام حاصل ہوا۔
یہی وہ عمر ہے جب دینی مدرسہ کا ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے، اگر اس وقت اس کے اندر اپنی شخصیت کا ادراک اور اپنے مقام کا شعور پیدا ہوجائے۔ اس کے دل میں انسانوں کی امامت کا شوق بس جائے اور اس کے سر میں علمی فتوحات کا سودا سماجائے، تو اللہ کی توفیق سے منزل خود پتہ پوچھتی ہوئی آسکتی ہے۔
لیکن اگر تعمیر ذات کا کوئی سرا ہاتھ نہ آئے، تعلیمی سفر کے مرحلے بے شعوری کے ساتھ طے ہوں، اور شروع سے ہی بڑا بننے کا شوق دل کو بے تاب نہیں کرے، تو کتابوں پر کتابیں ختم ہوتی جاتی ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کا سالانہ سفر بھی ہوتا رہتا ہے، مگر شخصیت میں کوئی ارتقا نہیں ہوپاتا ہے۔ انجام کار نہ مدرسوں سے رجال بن کر نکلتے ہیں، اور نہ امت کے قحط الرجال میں کچھ کمی ہوتی ہے۔
اپنی منزلت اور وقت کی قیمت کا صحیح اندازہ نہ ہو تو لایعنی مشغلوں کا انبار زندگی کی بے شمار قیمتی ساعتوں کو اپنے نیچے دبا دیتا ہے۔ ایک جگہ پڑھا کہ انسان پوری زندگی میں جس قدر مطالعہ کرسکتا ہے، اس کا پچھتر فی صد پندرہ سال سے پچیس سال کی عمر کے دورانئے میں کرسکتا ہے، افسوس ہوا کہ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو اس دورانئے سے پہلے ہی معلوم کیوں نہ ہوئی، کہ لاحاصل کج بحثیوں کے بجائے بہت سی ضروری اور مفید کتابوں کا مطالعہ کرلیا ہوتا۔
دینی مدارس کا اصل اور متفق علیہ مقصد ایسے علماء کی تیاری ہے، جو بدلتے ہوئے حالات میں بھی امت کی دینی رہنمائی کرسکیں۔ اس کے لئے خود مدرسے کے نظام تعلیم اور طریقہ تربیت میں بہت سی تبدیلیاں درکار ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس بھی عام طور سے پایا جاتا ہے، اور انہیں انجام دینے کی خواہش بھی ہر جگہ محسوس کی جاتی ہے، اور اس سلسلے میں وقتا فوقتا کانفرنسیں اور سیمینار بھی ہوتے ہیں، مگر مختلف اسباب کی وجہ سے مطلوب تبدیلیوں کی طرف خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوپا رہی ہے۔ اس جمود کا سب سے بڑا نقصان طلبہ کو پہونچتا ہے، کہ وہ زندگی کے اہم ترین مرحلے میں تعمیر ذات کے متعدد مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔
’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘ کے مخاطب دینی مدارس کے طلبہ ہیں، اس موضوع پر کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے طلبہ اور مستقبل کے علماء کو اپنی شخصیت کی تعمیر کی کچھ راہیں خود نظر آجائیں، کہ اگر مدرسہ کا ماحول معاون وسازگار نہ ہو، اور تربیت ذات کا کوئی ماہر میسر نہ آئے تو اس کتاب میں دئے گئے نسخے کسی حد تک ان کی رہنمائی کرسکیں۔ شخصیت کے ارتقا کے موضوع پر عالمی شہرت یافتہ کتابوں کا مطالعہ اور خود اپنی شخصیت میں رہ جانے والی کمیوں کا باریک بینی سے جائزہ اس کتاب کی تیاری میں بہت کام آیا۔
دینی تعلیم گاہوں سے جڑے ہوئے طلبہ کو اس کتاب کے مطالعہ سے کس قدر فائدہ ہوگا، یہ تو مطالعہ کرنے والے طلبہ ہی صحیح بتاسکیں گے، تاہم اسے لکھنے کے بعد خود مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر اس طرح کی رہنمائی اور طالب علمی کا وہ گزرا ہوا زمانہ دوبارہ مل جائیں تو شاید وہ بہت سے کام کئے جاسکیں جن کے نہیں کرنے کی حسرت دل کو اکثر بے چین رکھا کرتی ہے۔ وما توفیقی الا باللہ

4 تبصرے

Pdf mein nhi hai Kiya free download mein

Reply

طالبان علوم نبوت کو اس کتاب کے ذریعے آپ نے ایک قیمتی تحفہ دیا ہے اگر ممکن ہو تو افادہ عامہ کے لیے اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی فراہم کروادیں تو سونے پہ سہاگہ ہوگا
اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین اجر دے آمین

Reply

براہ کرم اگر ہو سکے تو اس کتاب کی پی ڈی ایف کاپی درج ذیل ایمیل پر ارسال کر دیں۔
میں آپ کا ممنون و مشکور ہوں گا
abdurrahmanalamgirkol@gmail.com
عبد الرحمن عالمگیر
جامعہ سلفیہ بنارس

Reply

اس کتاب کی مجھے بھی ضرورت ہے، اگر ممکن ہو تو ارسال فرمائیں، نوازش ہوگی
abdurraqeeb.faizi@gmail.com

Reply

ایک تبصرہ شائع کریں