اختلافات کو بڑا کرکے دکھانا بڑی غلطی ہے

اختلافات کو بڑا کرکے دکھانا بڑی غلطی ہے
محی الدین غازی
اختلاف ہونا اچھی بات بھی ہوسکتی ہے، اور بری بات بھی ہوسکتی ہے، لیکن کسی اختلاف کے سامنے مکبر شیشہ Magnifying Glass رکھ کر اسے کئی گنا بڑا کرکے دکھانا یقینا بہت بری بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت کا زیادہ گمبھیر مسئلہ اختلافات نہیں ہیں، بلکہ ہر اختلاف کو بہت بڑا کرکے دیکھنا اور دکھانا ہے۔
ایک مسجد میں محراب کے پاس بڑے حرفوں میں لکھا تھا ’’حی علی الصلاۃ سن کر کھڑا ہونا سنت ہے، اور اس سے پہلے کھڑے ہوجانا مکروہ ہے‘‘ صحیح بات یہ ہے کہ حی علی الصلاۃ سن کر کھڑے ہونا سنت کے خلاف نہیں ہے، لیکن اس سے پہلے کھڑے ہوجانا مکروہ بھی نہیں ہے، ہاں تنوع کے اختلاف کو تضاد کا اختلاف بناکر دکھانا ضرور ایک ناپسندیدہ کام ہے، یہ دراصل ایک معمولی سے بھی کم درجے کے اختلاف کو کئی ہزار گنا بڑا کرکے پیش کرنا ہے۔
جاحظ، اسلامی تاریخ کا ایک زبردست تذکرہ نگار ہے، اس نے خلیفہ مامون رشید کا ایک واقعہ ذکر کیا کہ خراسان کے ایک عیسائی پادری نے اسلام قبول کیا، اس کے کچھ عرصے بعد وہ مرتد ہوکر دوبارہ عیسائی ہوگیا، مامون رشید نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے بڑے ہی نرم اور ہمدردانہ لہجے میں اسلام سے لوٹ جانے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا، آپ لوگوں کے درمیان اتنے زیادہ اختلافات دیکھ کر میں متنفر اور بیزار ہوگیا ہوں۔ (أوحشني كثرة ما رأيت من الاختلاف فيكم)
مامون رشید نے اسے بتایا کہ ہمارے یہاں دو طرح کے اختلافات ہیں، ایک تو اس طرح کا اختلاف ہے جیسے اذان اور جنازے کی تکبیروں میں، تشہد کے الفاظ میں، عیدین کی نمازوں اور ایام تشریق کی تکبیروں میں، اسی طرح قرأتوں وغیرہ میں، تو یہ دراصل اختلاف ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو اختیار وگنجائش اور سہولت وکشادگی کی بات ہے، کوئی اقامت میں الفاظ کو دو دو بار ادا کرتا ہے تو کوئی ایک ایک بار، اور اس میں کوئی کسی کو نہ تو غلط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف اس طرح کا ہے جیسے قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر میں یا نبی پاک کی کسی حدیث کی تشریح میں اختلاف ہوجائے، ہمارے یہاں یہ اختلاف ضرور ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ کتاب وسنت کی حقانیت اور ان کی اساسی حیثیت پر ہم سب اتفاق رکھتے ہیں۔ اگر اس طرح کا اختلاف ہمارے دین سے تنفر کی وجہ بنا ہے، تو دنیا میں تو کوئی کتاب ایسی نہیں ہے خواہ وہ تورات ہوانجیل ہو یا کوئی اور کتاب ہو، جس کے الفاظ کی تفسیر اور مفہوم کی تعبیر میں اختلاف نہیں ہوتا ہو، بلکہ دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ کے معنی میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہو، اگر اللہ چاہتا تو اپنی کتاب اور اپنے رسولوں کے کلام کو اس طرح بنادیتا کہ ہمیں تفسیر وتشریح کی محنت کے بغیر مطلوب رہنمائی مل جاتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین ودنیا کی کوئی چیز ہم کو اس طرح نہیں ملی ہے کہ ہمیں اس کے لئے کوئی محنت نہیں کرنا پڑے، اگر ایسا ہو تو امتحان اور مسابقت کا تصور ہی نہیں رہ جائے، اللہ تعالی نے اس طرح دنیا کی بنا رکھی ہی نہیں ہے۔
تذکرہ نگار کے مطابق اس وضاحت سے وہ شخص مطمئن ہوکر دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو، جاحظ کی کتاب البیان والتبیین)۔ واقعہ میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ وہ شخص اسلام سے اس لئے متنفر ہوگیا تھا کیونکہ اس نے اختلافات کے بڑھے ہوئے حجم کو دیکھا تھا، جب اس کے سامنے اختلافات کا حقیقی حجم آیا تو اس کی وحشت دور ہوگئی۔
امت کے اختلافات کو ان کے حقیقی سائز میں دیکھنا ضروری ہے، جب یہ اختلافات اپنے حقیقی سائز میں نظر آئیں گے تو اضطراب اور بے چینی بھی نہیں ہوگی، اور اتفاق واتحاد کے لئے راستے بھی کھلیں گے۔ لیکن ان اختلافات کو جب بڑا کرکے دیکھنے یا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں، ایسی صورت میں کچھ لوگ ان اختلافات کے بڑے سائز سے متاثر ہوکر ایک دوسرے کو کافر اور گمراہ قرار دینے پر اتر آتے ہیں، اور امت کے اندر تکفیری رجحانات جنم لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ پورے دین اور ساری امت سے بدگمان ہوکر خود دین بیزاری اور ارتداد کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔
ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اختلافات ہیں جنہیں بہت بڑا اختلاف سمجھا جاتا ہے مگر وہ حقیقت میں اتنے بڑے ہوتے نہیں ہیں، ایک شہر میں تقلید اور بے تقلیدی کا جھگڑا اتنا بڑھا کہ لوگوں نے دیواروں پر ایک دوسرے کے خلاف لکھنا شروع کردیا، ایک نے لکھا ’’بے تقلیدی کفر کا زینہ ہے‘‘، تو دوسرے نے لکھا ’’تقلید عین کفر ہے‘‘، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ فقہی مسائل میں نہ تقلید عین کفر ہے، اور نہ بے تقلیدی کفر کا زینہ ہے، بلکہ عام طور سے جن فقہی امور ومسائل میں تقلید اور بے تقلیدی ہوتی ہے، ان امور ومسائل سے اصل زندگی پر کوئی قابل ذکر اثر واقع ہی نہیں ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں رحمان کے بندوں کی صفات بتائی گئی ہیں، اور کامیاب ہونے والے مومنوں کی بھی صفات ذکر کی گئی ہیں، کہیں اختصار کے ساتھ اور کہیں خوب تفصیل سے، تاہم نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ ان صفات کو اختیار کرنے میں نہ تقلید روڑا بنتی ہے، اور نہ بے تقلیدی رکاوٹ بنتی ہے۔ میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے عظیم مسلمانوں کی فہرست میں مقلدین کو بھی پایا ہے اور غیر مقلدین کو بھی پایا ہے۔

تکلیف اگر ایک بار تو احساس کیوں بار بار؟

تکلیف اگر ایک بار تو احساس کیوں بار بار؟
محی الدین غازی
پردیس میں رہنے والی بعض ہندوستانی خواتین کے بارے میں ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ انہیں شادی کے بعد ماہ دو ماہ یا سال دو سال سسرال میں رہنا پڑا، اس کے بعد وہ ملک کو الوداع کہہ کر پردیس آگئیں، اور گذشتہ پندرہ بیس سال سے ان کا یہیں قیام ہے، دو تین سال میں ماہ دو ماہ کے لئے وطن جانا ہوتا ہے، اور ہفتہ دو ہفتہ سسرال میں بھی رہنے کا موقعہ نکل آتا ہے۔ تاہم وطن سے دور سمندر پار رہتے ہوئے آج بھی ان کی گفتگو کا خاص موضوع سسرال والوں کی شکایتیں ہوا کرتا ہے، سسرال میں ملنے والے طعنوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے چہرے پر اداسی کا گہرا رنگ چھاجاتا ہے اور ان کے لہجے سے ٹپکتے ہوئے درد کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سسرال کے تعذیب خانے سے بس ابھی ابھی تھوڑی دیر کے لئے نکل کر اپنا دکھڑا سنانے آئی ہیں۔
میں کہتا ہوں، تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ آپ کے یہ دکھ درد کے سارے قصے سچے ہیں، اور واقعی آپ کی ساس نے آپ کے ساتھ بڑی سختی روا رکھی تھی، اور آپ کو سسرال میں میکے کے مقابلے میں بہت زیادہ کام کرنے پڑگئے تھے، ممکن ہے وہاں آپ کو نندوں کے طعنے واقعی سننے کو ملے تھے، تاہم اب تو آپ سکون اور راحت کی زندگی گزار رہی ہیں، آخر بہت پہلے گزرے زمانے کی جھوٹی سچی تلخ یادوں کو تازہ کرکے دل کو میلا اور طبیعت کو بدمزہ رکھنے کا اب کیا جواز ہے۔
دراصل یہ ایک غلطی ہے، جو ہم میں سے بہت سارے لوگوں سے بہت زیادہ سرزد ہوا کرتی ہے، اور ہم محسوس بھی نہیں کرپاتے کہ اس ایک غلطی کے نتیجہ میں ہم اپنے دل کو کس قدر اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم کو تکلیف ایک بار پہونچتی ہے اور ہم اس کو سو بار محسوس کرکے اپنے دل ودماغ کو سو بار تکلیف دیتے ہیں۔ اصل تکلیف سے دل میں ایک چھید ہوتا ہے، مگر ہم اسی چھید کی بے شمار نقلیں تیار کرکے پورا دل چھلنی کرلیتے ہیں۔
زبان کے زخم ہوں، یا پتھر اور تلوار کے زخم ہوں، ترقی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ہو، یا تجارت میں کوئی نقصان ہوگیا ہو، غیروں نے دھوکہ دے دیا ہو، یا اپنوں نے وشواس گھات کیا ہو۔ کسی بھی تکلیف کو بار بار یاد کرنا نہ جسم کی صحت کے لئے اچھا ہے اور نہ دل کی صحت کے لئے۔
مان لیتے ہیں کہ بعض تکلیفیں ایسی دائمی قسم کی ہوتی ہیں کہ دل کا روگ بن جاتی ہیں اور ان سے چھٹکارا پانا آدمی کے بس میں نہیں ہوتا ہے، لیکن اکثر تکلیفیں ایسی ہوتی ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں ان کو ہمیشہ کے لئے بھلادینا ممکن ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تکلیفوں کو بھولتے رہنا ہی ہمارے دل کی صحت اور خیالات کی پاکیزگی کے لئے اچھا ہے۔
کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دوسروں کی زبانوں سے نکلنے والے لفظوں کے تیر تمہارے کان میں تو داخل ہوکر کچھ سمع خراشی کرسکتے ہیں، لیکن تمہاری مرضی کے بغیر تمہارے دل کو زخمی نہیں کر سکتے ہیں، اس بات میں صداقت ہے، انسان کو اللہ نے غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے، وہ چاہے تو زہر میں بجھے ہوئے کسی تیر کی ایک خراش بھی اپنے دل پر نہ آنے دے۔
تاہم اگر کوئی شخص اتنا طاقت ور اور زیرک نہیں ہو، تو بھی اسے اتنا سمجھ دار تو ضرور ہونا چاہئے کہ ایک تکلیف دہ بات کی تکلیف کو ایک بار ہی محسوس کرے۔ اسے بار بار محسوس کرکے اپنی زندگی کو خود اپنے لئے عذاب بنانا دانش مندی تو نہیں ہے۔ دل میں تو یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ وہ تکلیف کو کافی کم کرکے یا کئی گنا زیادہ کرکے محسوس کرے۔ ہم دل کے ساتھ مجاہدہ کریں تو بڑی بات کی تکلیف کو بھی ہمارا دل کم کرکے محسوس کرے، اور ڈھیل دے دیں تو معمولی بات کو وہ غم کا پہاڑ بنالے۔
ہم سے اکثر ایک غلطی اور ہوتی ہے، وہ یہ کہ اگر ایک تکلیف صرف ہمیں پہونچتی ہے، تو ہم اپنے چاہنے والوں سے بتا کرکے انہیں بھی تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں، اس طرح تکلیف ایک ہوتی ہے، اور اس سے کئی دلوں کو کئی بار متاثر ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ ہم چاہیں تو وہ تکلیف صرف ہمارے دل کو محسوس ہو، اور صرف ایک بار محسوس ہو۔ غم بانٹنے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اپنے دکھوں کی اوریجنل کاپی اپنے پاس محفوظ رکھی جائے، اور اس کی ڈپلیکیٹ نقلیں تیار کرکے سب چاہنے والوں کو تقسیم کرتے رہیں، اس طرح آپ کی تکلیف تو ذرا کم نہیں ہوتی ہے، البتہ دوسروں کی تکلیفوں میں اضافہ ضرور ہوجاتا ہے۔
اس دنیا کو سجانے اور سنوارنے کا ایک گر یہ بھی ہے، کہ تکلیف دہ باتوں کو جلدی جلدی بھولتے رہا جائے، انہیں نہ دل میں بسنے کا موقعہ دیا جائے، اور نہ زبان پر ٹہلنے کی اجازت دی جائے۔ دوسری طرف خوشی کی باتوں کو موقعہ دیا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پھلیں پھولیں، اور ان کا زیادہ سے زیادہ چرچا ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر تکلیف دہ باتوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن اللہ پاک کی آپ کو ہدایت تھی کہ آپ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے رہیں (ودع اذاھم)، اور آپ زندگی بھر اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صبر وتحمل کا حسین پیکر بنے رہے۔ یقینا اللہ کے رسول کی سیرت میں ماننے اور چاہنے والوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔

شکایتیں دور کریں اور شکایتوں سے دور رہیں

شکایتیں دور کریں اور شکایتوں سے دور رہیں
محی الدین غازی
جب ہم ساتھ رہتے ہیں، تو ساتھ رہنے کے مزے تو ملتے ہی ہیں، ساتھ ہی کچھ شکایتیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں، عام طور سے یہ شکایتیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں، اتنی چھوٹی کہ ان کا بیان سننے پر ہنسی آجاتی ہے، لیکن چھوٹی چھوٹی شکایتیں جمع ہوجانے پر بہت بڑی لگنے لگتی ہیں، اتنی بڑی کہ اچھے خاصے تعلقات کو ختم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں، شکایتوں کو جمع کرتے رہنا، اور پھر ان سے انڈے بچے دلانا دانائی نہیں ہے۔ نیکی اور دانائی یہ ہے کہ دوسروں کی شکایتیں دور کرتے رہیں، اور اپنی شکایتیں صاف دل سے بھلاتے رہیں۔ دانشمندی یہ بھی ہے کہ ساتھ رہنے کے مزے یاد رکھیں اور ساتھ رہنے کی تکلیفیں بھولتے رہیں۔
سمجھ دار لوگ شکایت کی ہر اکائی کو الگ کرکے دیکھتے ہیں، چونکہ ہر شکایت اپنے آپ میں چھوٹی ہوتی ہے، اس لئے وہ ایسی کسی بھی شکایت کا دل پر اثر نہیں لیتے ہیں۔ ناسمجھ لوگ شکایتوں کے پورے پلندے کو اپنے ساتھ ڈھوتے رہتے ہیں، اور اسی لئے تعلقات کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔
یوں تو شکایتیں ہر طرح کے رشتے داروں اور تعلق والوں کے بیچ پیدا ہوسکتی ہیں، تاہم شکایتوں کی دو صورتیں مجھے بہت مشکل معلوم ہوتی ہیں، ایک وہ صورت جب بیوی شوہر سے اس کے والدین کی کسی زیادتی کی شکایت کرے، اور دوسری وہ صورت جب والدین بیٹے سے اس کی بیوی کے کسی خراب رویہ کی شکایت کریں۔ بہت سے گھروں میں آپسی جھگڑوں اور نااتفاقیوں کا بڑا سبب یہی دو طرح کی شکایتیں ہوا کرتی ہیں۔
غور وفکر کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ جہاں تک ہوسکے نہ تو بیوی ساس سسر کی شکایت شوہر سے کرے، اور نہ والدین بہو کی شکایت بیٹے سے کریں۔ والدین کو معلوم ہونا چاہئے کہ اکثر اوقات شوہر اپنی بیوی کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ بیوی کو بھی سمجھنا چاہئے کہ بیٹا والدین کے سامنے کتنا بے اختیار ہوتا ہے۔ اس پر مزید شوہر کی یہ دلی خواہش کہ اسے بیوی بچوں کی رفاقت بھی حاصل رہے، اور والدین کا سایہ بھی سر پر قائم رہے۔
شوہر بیوی کی شکایتیں سن کر اگر اپنے والدین کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو اکثر والدین ناراض ہوجاتے ہیں، اور اگر بیوی کی شکایتیں سنی ان سنی کرتا ہے تو بیوی ناخوش رہنے لگتی ہے۔ اسی طرح والدین بھی جب بیٹے سے بہو کی شکایت کرتے ہیں، تو شوہر یا تو بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بیوی اکثر آگ بگولا ہوجاتی ہے، یا بیوی سے تعلقات بنائے رکھنے کے لئے خاموشی اختیار کرتا ہے، تو والدین روٹھے روٹھے رہنے لگتے ہیں۔ غرض شوہر کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، اور وہ بیچارہ ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگتا ہے، اور پھر گھر میں کوئی خوش نہیں رہتا ہے۔
کیا ہم دوسروں سے پہونچنے والی تکلیفوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت ساری تکلیفوں کا خاموشی سے سامنا کرتے ہیں اور ان کی شکایت نہیں کرتے ہیں، جیسے کبھی شدید سردی یا سخت گرمی ہوتی ہے، یا زیادہ بارش ہوجانے سے راستے چلنے کے قابل نہیں رہتے، یا بچہ رو رو کر رات بھر سونے نہیں دیتا ہے، یا سڑک پر ٹریفک چلتے چلتے رک جاتی ہے۔ اس سے ہمیں ایک قیمتی اصول ملتا ہے کہ جب ایسا لگے کہ شکایت کرنے سے تکلیف دور نہیں ہوگی بلکہ اور بڑھ جائے گی، تو ہم اس کی شکایت ہی نہ کریں۔ اور اسے بھی انہی اضطراری حالتوں کے خانے میں ڈال دیا کریں جن کو ہماری شکایت دور نہیں کرتی ہے اور اسی لئے ہم ان کی شکایت بھی نہیں کرتے ہیں۔ ہاں جہاں ظلم بہت صریح ہو، یا غم بہت شدید ہو تو سب سے اچھا یہ ہے کہ اللہ سے مناجات کرلی جائے، (وأشکو بثي وحزني الی اللہ)۔ دل بھی ہلکا ہوگا، اور اللہ کی مدد بھی آئے گی۔
شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے خلاف والدین کی یا والدین کے خلاف بیوی کی شکایتیں سننے کے بعد کسی جذباتیت کا شکار نہ ہو، اور نہ فوری ردعمل ظاہر کرے، بلکہ بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، کہ شکایت بھی دور ہوجائے، کسی کے دل کو ٹھیس بھی نہیں پہونچے، اور تعلقات میں کوئی کڑواہٹ بھی نہیں آئے۔ شکایتیں دور کرنا نیکی کا کام ہے، لیکن حکمت ودانائی اس کے لئے پہلی شرط ہے۔
سچ یہ ہے کہ نہ کسی شوہر کو اچھا لگتا ہے کہ کوئی اس کی بیوی کی شکایت کرے، اور نہ کسی بیٹے کو اچھا لگتا ہے کہ کوئی اس کے والدین کی شکایت کرے۔ دونوں صورتوں میں اسے شدید قسم کا انقباض اور رنج ہوتا ہے۔ سمجھ دار بیوی اور دانا والدین اس کا بہت زیادہ لحاظ کرتے ہیں کہ ان سب کو ٹوٹ کر چاہنے والا کہیں ان کی ذرا سی غلطی سے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوجائے۔
بیوی کے سلسلے میں والدین کی شکایت دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شوہر بڑھ کر خود والدین کی خدمت کرنے لگے، کہ والدین کو بیٹے کی خدمت کے آگے بہو کی کوتاہیاں نظر نہ آئیں، اسی طرح والدین کے سلسلے میں بیوی کی شکایتیں دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کا زیادہ خیال رکھنے لگے، کہ بیوی اس کی چاہت کو دیکھ کر دوسروں کی تکلیف دہ باتوں کو نظر انداز کردے۔
شوہر کو بہت خوشی ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے والدین سے بہت خوش ہے، اور بیٹا اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہے جب اس کے والدین اس کی بیوی سے راضی نظر آتے ہیں۔ پس اگر گھر میں ہر کوئی دوسرے کے ہاتھ میں خوشی کا جام تھما دے تو سب کے ہاتھ میں خوشی کے جام آجائیں۔ اور گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے۔

اللہ کی رحمت ہو ڈاکٹر علوانی اور ڈاکٹر ترابی پر

اللہ کی رحمت ہو ڈاکٹر علوانی اور ڈاکٹر ترابی پر
محی الدین غازی
اللہ رحم فرمائے، امت کو ایک ہی وقت میں دو عظیم فکری رہنماؤں کے چلے جانے کا غم اٹھانا پڑا، اللہ دونوں بزرگوں کو اپنا قرب عطا کرے، اور ہم پسماندگان کو دل کی گرمی اور روح کی تڑپ نصیب کرے۔
یہ بات درست لگتی ہے کہ اس دور میں کار تجدید کسی ایک مجدد کا نہیں بلکہ مجددین کے ایک کاروان کا طالب ہے، اور وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ دونوں رہنما اس عہد کے کاروان تجدید کی صف اول میں شامل تھے، ایک علامہ طہ جابر علوانی، جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ’’امریکہ میں سرمایہ ملت کا نگہبان‘‘، اور دوسرے علامہ حسن ترابی، جو سوڈان میں اسلامی جدوجہد کے امین ونقیب تھے، دونوں بزرگوں میں بڑی مشابہت تھی، دونوں گروہی اور مسلکی اختلافات سے بہت اوپر اٹھ کر دیکھتے اور سوچتے تھے، دونوں پوری امت کے فکری اور علمی احیاء کے لئے فکرمند رہتے تھے، دونوں حالات کے نبض شناس تھے، دونوں کو اللہ تعالی نے مستقبل بینی کی یک گونہ صلاحیت سے نوازا تھا، دونوں ہمارے علمی ورثے کے گہرے واقف کار اور سچے پاسبان تھے، تاہم دونوں اندھی تقلید اور نری روایت پرستی کے خلاف تھے، اور دونوں امت میں اجتہادی روح کو زندگی اور تازگی دینے کے لئے کوشاں تھے، چونکہ وہ تجدید واجتہاد کے راستے پر گامزن تھے، اس لئے ان سے غلطیاں بھی ہوتی تھیں، اور وہ غلطیاں نظر بھی آتی تھیں۔
دراصل جو تقلید اور روایت پسندی کے راستے پر چلتا ہے، اس کو معذور سمجھا جاتا ہے، اور اس کی غلطیاں تقلید اور روایات کے پردے میں چھپ جاتی ہیں، لیکن جو اجتہاد کرتا ہے، وہ اجتہادی غلطیوں کا شکار بھی ہوتا ہے، اور وہی نشانہ تنقید بھی بنتا ہے، تاہم ساری غلطیوں کے باوجود وہ اجتہاد کرنے کی عظیم ترین خوبی سے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے بہترین مقام اجتہاد کا مقام ہے، ایسے لوگ اپنی اجتہادی غلطیوں کے باوجود انتہائی قابل قدر ہوتے ہیں۔ ایک دانائے راز نے بہت صحیح کہا ہے کہ ’’تم غور وفکر کرو اور غلطی کرو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم عقل پر تالے ڈال کر غلطیوں سے محفوظ ہوجاؤ‘‘۔ شکست کا سامنا بھی انہیں کو کرنا ہوتا ہے جو میدان جنگ میں اترتے ہیں، جو زمانے کی نفیر عام کو نظر انداز کرکے گھر بیٹھ رہتے ہیں، ان کے حصے میں شکست نہیں بلکہ ذلت آتی ہے۔
اس وقت امت مسلمہ میں جو بھی فکری تازگی اورعقل وخرد کی زندگی محسوس ہوتی ہے، اس میں ڈاکٹر ترابی اور ڈاکٹر علوانی کی پیش قدمیوں کا بڑا حصہ ہے۔ اور ’’وہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں‘‘
ڈاکٹر ترابی اور ڈاکٹر علوانی دونوں ہی مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں بہت زیادہ سوچتے تھے، اور بہت ساری جرأت مندانہ تجویزیں اور فتوے بھی پیش کرتے تھے، ان تجویزوں اور ان فتووں سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن یہ ماننا قرین انصاف ہے کہ وہ شتر مرغ کی روش اختیار کرتے ہوئے ان مسائل کے انکاری نہیں بنے تھے بلکہ ان کے حل کے متلاشی تھے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے مسائل بھی ان کے غوروفکر کا خاص موضوع تھے، جتنی تیز رفتاری سے دنیا بدل رہی ہے، اسی تیز رفتاری سے سوچنے کے وہ داعی تھے۔
ان دونوں کی نظر میں مغرب کے مسلمانوں سے زیادہ مغرب زدہ مسلمانوں کا مسئلہ توجہ کا طالب تھا، وہ ایسے تعلیمی نظام اور علوم کی ایسی تشکیل نو کے داعی تھے، جو مغرب کے فلسفہ زندگی کی بجائے مکمل طور سے اسلام کے نظریہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔
گو کہ اردو داں حلقے کی واقفیت ان بزرگوں سے بہت سرسری نوعیت کی ہے، کیونکہ ان کے افکار اردو زبان میں بہت کم منتقل ہوسکے۔ تاہم ان کی فکری کوششوں کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پائے جاتے ہیں۔
قحط الرجال کے اس دور میں جبکہ مردان فکروعمل کا آنا بہت کم اور جانا بہت زیادہ نظر آتا ہے، اور قہر الرجال کے اس زمانے میں جبکہ بہت سارے مجاہدان فکروقلم یا تو جیلوں میں نظربند ہیں، یا اظہار رائے کے بنیادی حق سے محروم ہیں، نئی نسل کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، ہر دور سے بہت زیادہ۔

کمزوریوں کو باقی نہ رہنے دیں

کمزوریوں کو باقی نہ رہنے دیں
(تعلیمی اداروں کی خدمت میں)
 محی الدین غازی
عمر کے چالیس سال گزر جانے کے بعد، جبکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دس سال پرانی ہوچکی تھی، ایک کانفرنس میں قرآن کی تلاوت اور انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی، اس موقعہ پر احساس ہوا کہ خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنے اور عمدہ تلفظ کے ساتھ انگریزی عبارت پڑھنے کے بنیادی پہلو کمزور رہ گئے ہیں۔
کوئی برا نہ مانے، جب کبھی اسلامی افکار ونظریات پر ماہر سمجھے جانے والے اسکالر حضرات قرآن مجید کی آیتیں غلط پڑھتے ہیں، تو خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ کسی معلم کی مدد سے ماہ دو ماہ میں قرآن صحیح پڑھنا سیکھ لیتے تو ایک بڑا عیب دور ہوجاتا، لیکن لگتا ہے کہ پیچھے پلٹ کر سیکھنا اور بار بار طالب علم بننا آسان کام نہیں ہے۔
تعلیم گاہ میں ہر مضمون اور زبان کے اپنے ابتدائی درجات ہوتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر طالب علم کو ابتدائی درجوں میں جو کچھ سیکھنا ہے وہ اچھی طرح سیکھ لے، اور اعلی درجات کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے ہی ان کمیوں کو پورا کرلے، جن کے لئے ابتدائی تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور سے ایسا نہیں ہو پاتا ہے، اور اونچے درجوں میں متعدد ایسے طلبہ بھی پہونچ جاتے ہیں، جو نہ درست عبارت پڑھ پاتے ہیں اور نہ صحیح الفاظ لکھ پاتے ہیں۔ اس کوتاہی کا پہلا ذمہ دار خود تعلیمی ادارہ ہوتا ہے۔
اس مضمون میں دراصل اس امر کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں باقی رہ جانے والی پرانی کمزوریوں کو دور کرنے کا مناسب انتظام نہیں ہوتا ہے، اگر طالب علم کی شخصیت میں کوئی پہلو ابتدائی درجات میں ناقص رہ جائے تو وہ آخر تک تشنہ تکمیل ہی رہتا ہے، سوائے اس کے کہ اپنی کمیوں کو وہ خود کسی طرح دور کرلے۔
ظاہر ہے اعلی درجات میں پہونچنے کے بعد جب سماجی، سیاسی اور معاشی افکار ونظریات پڑھنے پڑھانے کا وقت ہوتا ہے، کلاس کے اندر کسی کمزور طالب علم کا املا یا تلفظ درست کرانے پر توجہ نہیں دی جاسکتی ہے، خواہ اس سلسلے میں کسی طالب علم کے اندر کتنی ہی زیادہ کمی محسوس کی جارہی ہو، کیونکہ املا اور تلفظ سیکھنے کا کلاس کئی سال پیچھے چھوٹ چکا ہوتا ہے۔
طلبہ کی یہ بنیادی کمزوریاں اساتذہ سے پوشیدہ بھی نہیں ہوتی ہیں، کلاس میں گفتگو کرتے ہوئے تلفظ کی، اور امتحان کی کاپیاں چیک کرتے ہوئے املا کی، ایسی ایسی غلطیاں استاذ کے سامنے آتی ہیں، کہ وہ سر پیٹ لیتا ہے، تاہم استاذ کے پاس بھی آہ سرد بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ حال دینی مدرسوں کا بھی ہے اور عصری اسکولوں کا بھی ہے۔
اس سلسلے میں ایک عملی تجویز یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں وقفے وقفے سے مختلف کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے سال بھر خصوصی کلاس چلائے جائیں، تمام طلبہ کا امتحان لیا جائے اور ایسے تمام طلبہ جن کے اندر کوئی بنیادی کمزوری رہ گئی ہو، اس خصوصی انتظام سے فائدہ اٹھائیں۔ اس میں کلاس اور عمر کی کوئی قید نہیں ہو، بلکہ ادارے کے تمام ضرورت مند طلبہ کے لئے اس کورس سے مستفید ہونا لازمی قرار دیا جائے۔
دراصل تعلیمی اداروں میں جو معمول کے امتحان ہوتے ہیں، ان کا تعلق کورس اور سیلیبس سے ہوتا ہے، عملا ان کا یہ مقصد ہوتا ہی نہیں ہے کہ طلبہ کی بنیادی کمزوریوں سے آگاہی ہو، اس لئے طلبہ اپنے مضامین میں پاس ہوتے رہتے ہیں، اور آخری درجے تک ان کی بنیادی کمزوریوں کا مسئلہ حاشئے میں پڑا رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کچھ امتحانات خصوصی طور سے ان بنیادی کمزوریوں سے واقف ہونے کے لئے ہوں۔
اسی طرح فراغت سے پہلے بھی ایک بار طلبہ کو خصوصی امتحانات سے گزار کر ان میں رہ جانے والی بنیادی کمزوریوں کو معلوم کیا جائے اور خصوصی کلاسس کے ذریعہ ان کمزوریوں کو دور کرنے کے بعد ہی انہیں سند فراغت دی جائے۔ یہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے لئے بدنامی کی بات ہوگی کہ سالہا سال کی تعلیم کے بعد بھی اس کے سند یافتہ طالب علم کے اندر بنیادی کمزوریاں باقی رہیں۔
تاہم اگر ادارے کی طرف سے اس کا انتظام نہیں ہو، اور ذمہ داران ایسی کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں، تو طالب علم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، کیونکہ کمزوری کا سبب کوئی بھی ہو، لیکن ہے تو وہ اس کی اپنی شخصیت کی کمزوری۔ ادارے کو الوداع کہنے کے بعد اسے خود اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنا ہے، غلط لکھنے، غلط پڑھنے، اور غلط بولنے پر اسے ہی تو رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا، اس لئے وہ فیصلہ کرے کہ اسے خود ہی اپنی کمزوریوں سے واقف ہوکر انہیں دور کرنا ہوگا۔
شخصیت کی مختلف کمیوں کو دور کرنے کی سب سے مناسب جگہ اور وقت تعلیمی ادارہ اور طالب علمی کا زمانہ ہے۔ وہاں سیکھنے سکھانے کا ماحول ہوتا ہے، اساتذہ بھی میسر ہوتے ہیں، اور مختلف صلاحیتوں کے حامل طلبہ بھی ہوتے ہیں، ان کی مدد سے خود کو بہتر بنانے کا ہدف آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
لیکن درس گاہ سے کمزوریوں کو ساتھ لے کر نکلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی بھر ان کا ساتھ رہے، بلکہ جب جس کمزوری کا احساس ہوجائے، اسے دور کرنے کی فوری کوشش کرنا شخصیت کے ارتقاء کے لئے مطلوب ہے۔ یاد رہے اپنی کمزوریوں کو خود دور کرنے کا اصل وقت وہی ہے جب ان کے ہونے کا احساس ہوجائے۔

عادت کا مقام اور، عبادت کا مقام اور

عادت کا مقام اور، عبادت کا مقام اور
محی الدین غازی
بہت سارے اچھے کام جو آپ بطور عادت کرتے ہیں، ایک پاکیزہ نیت کی خوب صورت آمیزش سے وہ عبادت بن سکتے ہیں، عادت وحاجت کے تحت ان کاموں کو تو آپ انجام دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی کی نیت کرتے رہیں، تو آپ کی بہت ساری عادتیں ترقی پاکر عبادتوں میں تبدیل ہوتی جائیں گی، اس طرح آپ اپنے معمول کے کاموں اور معمولی کاموں کو بھی بہت خاص اور بہت کار آمد بناسکیں گے، جن کاموں کو صرف دنیا کے فائدے کے لئے انجام دیتے ہیں، وہ آخرت کی کامیابی کے لئے بھی کام آجائیں گے۔ یہ نکتہ مربی عظیم امام حسن البنا نے بتایا۔
نیت کے اندر غیر معمولی تاثیر پائی جاتی ہے، اعلی نیت ایک عام سے کام کو امتیازی شان عطا کردیتی ہے، اور گھٹیا نیت بڑے بڑے کارناموں کا امتیاز چھین کر انہیں مٹی کے برابر کردیتی ہے۔
اللہ نے کسی عبادت کو گراں اور بے مزا نہیں بنایا ہے، ہر عبادت آسان اور لطف سے بھرپور ہوتی ہے، قصور ہماری طبیعت اور مزاج کا ہوتا ہے، کہ ہم دوسری پرانی عادتوں کی وجہ سے عبادت والے کاموں کے عادی نہیں ہوتے ہیں، اور نہ ہی ان کے حقیقی لطف سے آشنا ہوتے ہیں، تاہم اگر ہم نفس کے ساتھ کچھ مجاہدہ کرکے خود کو عبادت کا عادی بنالیں، تو انہیں کرنا بہت آسان ہوجائے، بلکہ انہیں کئے بغیر چین نہ آئے، اور ان کا ایسا مزا لگ جائے کہ دنیا کی کوئی چیز ان سے اچھی اور مزے دار نہ لگے۔ عبادت کا شوق دل میں اس طرح بس جائے کہ پھر دل مسجد میں اٹکا رہے، اور آدھا سال جانے والے رمضان کے غم اور باقی آدھا سال آنے والے رمضان کے انتظار میں گزرے۔
دراصل ہم بچپن سے کچھ نہیں کرنے یا محض تفریح کرنے کے عادی ہوتے ہیں، یہ عادت ہماری رگ رگ میں بسی ہوتی ہے، دن لہو ولعب اور راتیں گہری نیند میں گزرتی ہیں، پھر جب عبادت کا شعور جاگتا ہے، تو پرانی عادتیں اور پرانے معمولات رکاوٹ بننے لگتے ہیں، ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ نفس کے ساتھ کچھ سختی اور کچھ مجاہدہ ہو، اور پرانی عادتوں کی جگہ نئے کاموں کا نفس کو عادی بنایا جائے، اس مجاہدے کے بعد سب کچھ درست ہونے لگتا ہے، عبادتیں آسان ہوجاتی ہیں، اور ان کے حقیقی لطف سے دل آشنا ہوجاتے ہیں، ایک بزرگ اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے چالیس راتیں اپنے نفس کے ساتھ مجاہدے میں گزاریں، وہ نیند مانگتا تھا، اور میں اسے تہجد کے لئے مجبور کرتا تھا، جسم گداز بستر کی طرف جانے کے لئے مچلتا اور میں اسے زبردستی مصلے پر کھڑا رکھتا، چالیس راتوں کے مجاہدے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے چالیس سال تک تہجد گزاری اور آہ سحر گاہی کا خوب خوب لطف اٹھایا۔
انسان جب کسی عبادت کا عادی ہوجاتا ہے، تو اس کے لئے طبیعت بھی مائل رہنے لگتی ہہے، اذان سنتے ہی قدم خود مسجد کی طرف اٹھنے لگتے ہیں، رات کے آخری پہر میں آنکھ خود کھل جاتی ہے، ضرورتمند کو دیکھ کر قدم رک جاتے ہیں، اور ہاتھ خود ہی جیب کی طرف بڑھنے لگتا ہے، مسجد شروع میں دور لگتی ہے، لیکن روزانہ پانچ بار آنے جانے سے کافی قریب لگنے لگتی ہے، لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ نفس کو عبادتوں کا عادی تو بنانا ہے، لیکن عبادتوں کو عادتوں کی طرح انجام نہیں دینا ہے۔ عبادتوں میں عادت والی پابندی تو ہونا چاہئے، لیکن عادت والی بے رغبتی اور بے خیالی ہرگز نہیں رہے۔ اگر عبادت کے وقت دل کہیں اور غائب ہو تو سمجھ لیجئے کہ عبادت عادت بن گئی۔ عبادت اور عادت میں جوہری فرق حضور قلب کا ہے۔ عبادت میں دل حاضر بھی رہتا ہے اور بیدار بھی رہتا ہے۔ کسی دانائے راز نے کہا: کتنے لوگ اپنے جسم کو لے کر خانہ کعبہ پہونچ جاتے ہیں، جبکہ ان کا دل خانہ کعبہ کے رب سے بیگانہ ہوتا ہے، اور کتنے لوگ ہیں کہ اپنے گھر میں بستر پر بیٹھے ہوتے ہیں، اور دل مقام اعلی سے وابستہ ہوتا ہے۔
جو لوگ عبادت کے سفر پر نکلتے ہیں ان میں سے بہت سارے لوگ عادت کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، اور اسی کو اپنی منزل سمجھ لیتے ہیں۔ عادت کو زندگی کی منزل وہ لوگ بنایا کرتے ہیں، جو دل کو حاضری کی زحمت نہیں دینا چاہتے ہیں۔ دل کی حاضری جسم کی حاضری سے زیادہ مشکل کام ہے، اور اس کے لئے زیادہ ریاضت کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن جب دل کو حاضری پر آمادہ کرلیا جائے، تو عبادت کے مقام احسان پر پہونچنا آسان ہوجاتا ہے۔
سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ دل کو حاضر کیسے رکھا جائے؟ ایک بزرگ نے اس کا جواب یہ دیا کہ عبادت میں دل کی حاضری ان کو نصیب ہوتی ہے، جو عبادت کے باہر بھی دل کو حاضر رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جو نماز کے باہر خشوع کی کیفیت تلاش کرتے ہیں، انہیں نماز کے اندر بھی خشوع کی کیفیت حاصل رہتی ہے، جو اپنی نیت کی خوبی سے ہر اچھی عادت کو عبادت بنانے کا عمل کرتے رہتے ہیں، ان کی عادتیں تو ترقی پاتی ہی ہیں، عبادتوں کو بھی ترقی کے مدارج طے کرنے کا خوب موقعہ ملتا ہے۔
عبادت اور عادت سے متعلق تین نکات یاد رکھنے کے ہیں، اپنی عادتوں کو عبادتوں میں تبدیل کرتے رہیں، عبادتوں کے عادی ضرور بنیں، مگرعبادتوں کو عادت جیسا مت بنائیں۔ ان تین چیزوں کے لئے بالترتیب تین چیزیں مطلوب ہیں، نیت، مجاہدہ اور دل کی حاضری۔

پہچان پتر اور پہچان، سفر میں ساتھ رکھیں

پہچان پتر اور پہچان، سفر میں ساتھ رکھیں
محی الدین غازی
آن لائن ریلوے ٹکٹ کے سلسلے میں ہماری عام معلومات تو یہ ہیں کہ ایک ٹکٹ میں کئی افراد شامل ہوں تو کسی ایک کے پاس شناختی ثبوت ہونا کافی ہے، تاہم وجے واڑہ اور بلارشا کے بیچ میں کئی مرتبہ دیکھا کہ ریلوے کی ایک ٹیم جس میں ایک بہت سخت مزاج خاتون بھی ہوتی ہیں، مسافروں کے ٹکٹ چیک کرتی ہے، اور آن لائن ٹکٹ میں درج تمام افراد سے شناختی ثبوت بھی مانگتی ہے، جن کے پاس شناختی ثبوت نہیں ہوتا ہے وہ سخت پریشانی اور بسا اوقات اچھے خاصے جرمانے سے دوچار ہوتے ہیں۔
بار بار کے اس مشاہدے کے بعد میرا ذہن یہ بنا کہ ہر شخص کو شناختی ثبوت اپنے ساتھ ضرور رکھنا چاہئے، نہ جانے کب اور کہاں اس کی ضرورت پڑجائے۔ شناختی ثبوت کے ہمراہ ایک دو فون نمبر بھی رہنے چاہئیں تاکہ کسی ناگہانی میں گھر والوں سے رابطہ ہوسکے۔ رابطے کے نمبرات موجود ہونے سے دوسروں کو بروقت مدد کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے، کسی نے بہت خوب کہا ہے؛
گھر سے نکلو تو پتہ جیب میں رکھ کر نکلو
 حادثے چہروں کی پہچان مٹادیتے ہیں
ایمرجنسی رابطے کے نمبرات ذہن کے حافظے میں بھی محفوظ رہیں تو بہت بہتر ہے، موبائیل فون کے پھیلاؤ کے بعد اپنے فون نمبر اور اپنوں کے فون نمبر یاد نہیں رکھنے کا مزاج بن گیا ہے، یہ کمزوری ہے، اس کو دور کرلینا چاہئے، ورنہ آدمی کبھی بڑی لاچاری کا سامنا کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اب فون کی ڈائری رکھنے کا رواج ختم ہوچلا ہے، لیکن اس کی ضرورت بھی ختم ہوگئی ہو، یہ درست نہیں ہے۔
سفر ہو یا حضر، شناختی کارڈ سے زیادہ اہمیت خود آپ کی شناخت کی ہے، پہچان پتر کے ساتھ اگر ہم اپنی اسلامی پہچان کا سفر میں بھرپور خیال رکھیں تو ہمارا سفر بہترین عبادت بن جائے۔ ہندوستان میں اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کے لئے سفر بہت اہم موقع ہے، ایک مسلمان اپنے حسن سلوک اور اعلی کردار سے برادران وطن کے دل میں کبھی نہیں مٹنے والے نقوش چھوڑ سکتا ہے۔
ہم جیسے لوگ جو مسلم آبادی میں رہتے ہیں اور غیر مسلموں سے میل جول کا موقع بہت کم مل پاتا ہے، سفر کے دوران اس کمی کی تھوڑی سی تلافی کرسکتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمیں سفر کے دوران برادران وطن سے جتنا زیادہ رابطے کا موقع ملتا ہے، شاید کسی اور موقع پر نہیں ملتا ہے، اور سفر کے دوران لوگوں کی مدد کے جتنے مواقع سامنے آتے ہیں، کسی اور موقع پر نہیں آتے ہیں، نیز سفر کے دوران کسی مشکل میں کام آنے والے زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔
بعض لوگ سفر میں بہت لئے دئے رہتے ہیں، دوران سفر میل جول بڑھانا ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا، ایسے لوگ سفر سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپاتے ہیں، سفر ان کے لئے محض ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ سفر میں اپنے سماجی کردار کو فعال رکھتے ہیں، وہ ہر سفر کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی یادگار بنادیتے ہیں۔
سفر میں دوسروں کے کام آنے کے بہت سارے موقع خود سامنے آتے رہتے ہیں، بس خدمت کو چاہنے والا دل اور موقع کو پہچاننے والی نگاہ ہونا چاہئے، حدیث میں کسی شخص کو سواری کے جانور پر سوار ہونے یا اس کے سامان کو چڑھانے میں مدد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اسے صدقہ بتایا گیا ہے۔ ٹرین میں چڑھتے اور اترتے ہوئے بہت سارے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے میں یہ حدیث بڑی ہمت افزائی کرتی ہے۔
مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم تو پوری دنیا میں جاری ہے، اور ایسی وضع قطع جس سے آدمی مسلمان لگے، منفی پروپیگنڈے کا زیادہ نشانہ بن رہی ہے، میرا خیال ہے کہ اس وضع قطع اور اس ظاہری حلئے کے لوگ اگر آج کے ماحول میں خدمت اور حسن اخلاق کے نمونے پیش کریں، تو لوگ زیادہ متوجہ ہوں گے، اور ان کے دل پر زیادہ اچھا اثر پڑے گا۔ مختلف تجربات کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ اس دور میں اسلامی پہچان رکھنے والے لوگوں پر ان کی پہچان کے حوالے سے خدمت اور حسن اخلاق کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔
ہمارے اجداد نے حسن اخلاق کے جو درخت لگائے تھے ان کا سایہ ابھی بھی جگہ جگہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کا فضل ہے کہ آج کے پرآشوب اور بدگمانی اور بے اعتمادی کے دور میں بھی عام لوگ دوران سفر اپنے سامان اور اپنی خواتین کو اسلامی وضع قطع کے لوگوں کے پاس محفوظ تصور کرتے ہیں، یہ بات میں سینکڑوں بار خود مشاہدہ کرنے کے بعد کہہ رہا ہوں۔
پرانے درختوں کا سایہ باقی رہے، نئے پودے لگائے جاتے رہیں، یہ ذمہ داری ہمیں قبول کرنا چاہئے۔

قیام لیل کیسے کریں؟

قیام لیل کیسے کریں؟
محی الدین غازی
کیا آپ جانتے ہیں؟
 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو تہجد پڑھتے تھے جبکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بیماری میں بھی تہجد کی نماز نہیں چھوڑ تے تھے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں بھی تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں بھی قیام لیل نہیں چھوڑ تے تھے۔
قیام لیل کی فضلیت
 دن کا مجاہد رات کا عابد سچے مومن کی پہچان ہے۔ جس کی رات گھاٹے میں گئی اس کا دن نفع بخش ہو ہی نہیں سکتا۔ دن کی محنت تو رات کی عبادت ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
 سورہ سجدہ میں رات کے عبادت گزاروں کی تصویر بڑے خوب صورت اور دلآویز انداز سے پیش کی گئی ہے۔
 تتجافی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا و طمعا ومما رزقناھم ینفقون۔ فلا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون۔
 ترجمہ: (ان کے پہلو خواب گاہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طلب کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپاکر رکھی گئی ہے ان کے کاموں کے بدلے میں۔)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام لیل کی چار نمایاں خصو صیات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ قیام لیل کے پابند ہو جاؤ کیوں کہ
(۱) یہ تم سے پہلے کے صالحین کا شیوہ رہا ہے،
(۲)یہ رب سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے،
(۳) یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے
(۴) اور یہ گناہوں سے باز رہنے کی تدبیر ہے۔‘‘
امام حسن بصریؒ نے کہا:
’’رات کی نماز سے زیادہ سخت عبادت میں نے نہیں دیکھی‘‘۔
ان سے جب پوچھا گیا: تہجد گذاروں کے چہرے اتنے اچھے کیوں ہوتے ہیں؟
 انہوں نے جواب دیا: ’’تنہائی میں رحمان سے محومنا جات ہوئے تو رحمان نے انہیں اپنے نور کی خلعت سے نوازا‘‘۔
 عام راتوں کی عبادت کی فضیلت میں یوں توبہت ساری آیتیں ، حد یثیں اور اقوال ملتے ہیں۔ لیکن رمضان کی راتوں کی فضیلت جدا گانہ ہے، ارشاد نبوی کے مطابق :
 ’’جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت میں گزارا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘
 پھر بالخصوص رمضان کے آخری دس روز کے سلسلے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی اہتمام منقول ہے کہ جب آخری عشر ے کا آغاز ہوتا تھا تو کمر کس لیتے تھے، اہل خانہ کو جگاتے تھے اور رات کو زندہ کر دیتے تھے۔ یہ بیان حضرت عائشہ کا ہے اور رات کو زندہ کر دینے کا مفہوم وہی سمجھ سکتا ہے جو شب بیداری اور دعائے نیم شبی کے تجر بات سے گزر چکا ہو۔
محر کات
ایک مرتبہ رسول پاک نے حضرت عبداللہ بن عمر کے سلسلے میں کہا:
 ’’عبد اللہ بہت اچھا آدمی ہے اگر وہ رات میں عبادت بھی کرنے لگے‘‘۔ سالم کا بیان ہے کہ پھر عبداللہ نے اپنی نیند بہت گھٹا دی اور تاحیات قیام لیل کے معمول پر قائم رہے۔
 دراصل رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عبداللہ بن عمرؓ کے سلسلے میں شہادت اور پھر یہ لطیف اشارہ ایک بہت بڑا محرک تھا۔ جس کی تحریک نے انہیں تا حیات شب بیداری پر قائم رکھا۔
 ہمارے لیے بھی سارے محرکات اور معاون ذرائع موجود ہیں جن کا اہتمام کیا جائے تو اس عظیم عبادت کا پابند ہونا مشکل نہیں ہے۔ علماء کرام نے اس سلسلے میں بہت کچھ ذکر کیا ہے:
جہنم کا خوف اور جنت کی طلب
 ایک بزرگ کا کہنا تھا: جہنم کے تصور نے عبادت گذاروں کی نیند اڑا دی۔ دوسرے بزرگ کے بقول : جب میں جہنم کو یاد کرتا ہوں تومیں بے حد خوف زدہ ہو جاتا ہوں اور جنت کو یاد کرتا ہوں تو اس کی طلب بے پناہ ہو جاتی ہے۔ دراصل یہی خوف اور یہی طلب قیام لیل کا محرک بنتی ہے۔
گناہ اور نا فر مانی سے اجتناب
 فضیل بن عیاض کہا کرتے تھے: جب تم یہ دیکھو کہ رات کو اٹھ نہیں پاتے ہو اور دن میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہوتو سمجھ لو کہ تم بد نصیب ہو اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ یہ بیڑیاں تمہارے گناہ ہیں جنہوں نے تمہیں جکڑ رکھا ہے۔
 حسن بصری سے ایک آدمی نے پوچھا کہ میں اچھا خاصا سوتا ہوں، رات میں اٹھنا بھی چاہتا ہوں وضو کا پانی بھی رکھ دیتا ہوں پھر آخر کیوں نہیں اٹھ پاتا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: تمہارے گناہوں نے تمہیں باندھ رکھا ہے۔
 امام ثوری کا تجربہ ہے کہ محض ایک گناہ کی وجہ سے پانچ مہینے تک قیام لیل سے محروم رہے۔
منا جات رب کی لذت کا تصور
 ابوسلیمان کہتے ہیں رات کو اٹھنے والوں کو عبادت کرنے میں اتنا مزہ آتا ہے جتنا عیاشی کرنے والوں کو آہی نہیں سکتا، اور اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا ہی پسند نہیں کرتا۔
 ایک بزرگ نے اپنے مریدوں کو خطاب کرکے کہا: زیادہ مت کھاؤ ورنہ زیادہ پانی بھی پیوگے، زیادہ سونا بھی پڑے گا اور انجام کار زیادہ گھاٹے میں رہوگے۔
زیادہ عیش کوشی سے اجتناب
 حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ’’اے بیٹے جب معدہ زیادہ بھر جاتا ہے تو سوچنے کی طاقت سوجاتی ہے، حکمت و دانائی گونگی ہو جاتی ہے اور جسم کے اعضاء عبادت سے جی چرانے لگتے ہیں۔
 بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ وہ چھت پر یا صحن خانہ میں سویا کرتے تھے اور نرم بستر سے پرہیز کرتے تھے تاکہ گہری نیند نہیں آجائے۔
قیام لیل کی نیت کرتے ہوئے جلد سونے کی عادت
 حضرت عمر بن خطابؓ کا معمول یہ تھا کہ عشا ء کی نماز کے بعد لوگوں کو کوڑے سے مارتے تھے اور کہتے تھے رات کے پہلے حصے میں گپ بازی کرتے ہو اور آخری حصے میں پڑے سوتے رہتے ہو۔
 بزرگوں کا تجربہ ہے کہ آدمی سچے دل سے جس وقت اٹھنے کی نیت کرتا ہے اس کی آنکھ اس وقت کھل جاتی ہے۔ بصورت دیگر جو بھی تدبیریں ہوسکتی ہوں بیدار ہونے کی انہیں آزمانا چاہیے خواہ وہ الارم گھڑی ہو یا ٹیلیفون الارم۔
 بعض لوگ تہجد گروپ تشکیل دیتے ہیں اور ان میں سے جس کی آنکھ پہلے کھل جاتی ہے وہ تمام لوگوں کو فون کی گھنٹی سے ہوشیار کر دیتا ہے۔
دن کی مختصر نیند
 جسے عربی میں قیلولہ کہا جاتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سحری کھا کر دن کا روزہ رکھنے کی قوت پاؤ اور قیلولہ سے قیام لیل میں مدد حاصل کرو۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس قدر تاکید کی کہ ’’قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے شیطان کو تہجد تو پڑھنا نہیں ہوتی ہے پھر وہ قیلولہ کس لیے کرے گا۔
نہیں اٹھنے پر سزا کا تعین
 صحابی رسول تمیم دارمیؓ کے سلسلے میں بیان ہوا ہے کہ ایک بار پوری رات سوتے رہ گئے، اس کی سزا انہوں نے اپنے آپ کو یوں دی کہ ایک سال تک نہیں سوئے۔ ممکن ہے اس میں راوی سے کچھ مبا لغہ ہوگیا ہو، لیکن یہ تصور تو اس واقعہ سے یقیناًملتا ہے کہ آدمی اپنی کوتا ہی پر خود اپنے طور سے سزا تجویز کرکے نفس کو اطا عت و عباد ت کا خوگر بنا سکتا ہے۔
اعا نت اور توفیق کی دعا
 سو جانے کے بعد دو بار ہ آدمی صرف اللہ کے حکم اور فیصلے سے بیدار ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اعانت اور تو فیق کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
اسلاف کی زندگی کا مطالعہ
 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شب بیداری کے احوال صحابہ کرامؓ، تابعین اور دیگر بز رگان دین کی راتوں کی عبا دتوں کے احوال و واقعات پڑھ کر بھی حوصلہ ملتا ہے، تحریک پیدا ہوتی ہے۔
عادت
 عادت بذات خود ایک محرک ہے، اللہ پاک نے جس کام کا بھی حکم دیا ہے وہ بالیقین آسان (یسر ) ہوتا ہے۔ نفس کا عادی نہ ہونا اسے مشکل بنا تا ہے۔ اگر آدمی خود کو اس کا عادی بنالے تو پھر اسے اس کام میں اتنا مزا آئے گا کہ وہ پھر اس کے بغیر زندگی بے کیف ہی محسوس کرے گا۔
کچھ رہ نماباتیں
 * رات کی عبادت اندھیرے میں ہونا چا ہیے، روشنی اور بالخصوص تیز روشنی خشوع کی راہ میں حجاب بن جاتی ہے۔ برقی قمقموں کا رو حانی تجلیات کے ساتھ اجتماع بہت مشکل ہوتا ہے۔
 * نماز انفرادی ہو، تنہائی میں ہو اور آواز ہلکی بلند ہو۔ نہ بالکل ایسی کہ خود کو سنائی نہ دے، نہ بالکل بلند، ہلکی گنگنا ہٹ سی ہو، رات کی نماز کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ بلند رکھیں اور حضرت عمرؓ کو ہدایت دی کہ آواز کچھ پست رکھیں۔
 * قیام ، رکوع اور سجدے خوب لمبے ہوں۔ حالت قیام میں لمبی سورتوں کی تلاوت کرے، نہیں یاد ہوں تو ایک ہی رکعت میں متعددچھوٹی سورتوں کی تلاوت کرے، اور وہ بھی یاد نہ ہوں تو ایک دو سورتوں کو ہی بار بار پڑھے۔
 * رکوع اور سجدے کی حالت میں تسبیح بار بار پڑھنی چاہیے تین یا سات کی قید ضروری نہیں ہے۔ سجدے کی حالت میں تسبیح کے علاوہ دعائیں بھی مانگی جائیں۔ ایک ایک دعا کو بار بار دہرا یا جائے ۔ کبھی کبھی عام افراد کو الجھن سی ہوتی ہے کہ لمبی نماز یں کس طرح پڑھیں۔مذ کورہ مشور ے اس بارے میں مفید ہوں گے۔
 * قیام لیل کے اعمال میں نماز ،تلاوت کلام پاک، ذکر و دعا اور غور و تد برسب شامل ہیں۔ تاہم نماز افضل ترین اور جامع ترین عمل ہے۔ اس کے بغیر قیام لیل کا تصور ہی نہیں ہے۔
 * رات کی نماز اور بالخصوص رمضان کی راتوں کی خاص دعا ہے۔ اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے۔ معاف کرنا تجھے پسند ہے۔ ہمیں معاف کر دے۔) یہ چھوٹی سی دعا ہمارے قیام لیل کو بہت بابرکت اور نفع بخش بنا سکتی ہے۔

’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘

’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘
 طلبہ مدارس کے لئے ایک رہنما کتاب
محی الدین غازی
حضرت عبد اللہ بن عباس کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے دس پندرہ سال کی عمر میں طے کرلیا تھا کہ انہیں بڑا عالم بننا ہے، اس فیصلے کے تیس سال بعد وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم قرار پائے۔
صحیح رہنمائی کے لئے یہ مناسب ترین وقت ہوتا ہے، لگ بھگ اسی عمر میں ایک جوہر شناس دانا نے امام شافعی کے دل میں فقیہ بننے کا شوق پیدا کردیا، اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ان کو فقہ میں امامت کا مقام حاصل ہوا۔
یہی وہ عمر ہے جب دینی مدرسہ کا ایک طالب علم اپنے تعلیمی سفر کا باقاعدہ آغاز کرتا ہے، اگر اس وقت اس کے اندر اپنی شخصیت کا ادراک اور اپنے مقام کا شعور پیدا ہوجائے۔ اس کے دل میں انسانوں کی امامت کا شوق بس جائے اور اس کے سر میں علمی فتوحات کا سودا سماجائے، تو اللہ کی توفیق سے منزل خود پتہ پوچھتی ہوئی آسکتی ہے۔
لیکن اگر تعمیر ذات کا کوئی سرا ہاتھ نہ آئے، تعلیمی سفر کے مرحلے بے شعوری کے ساتھ طے ہوں، اور شروع سے ہی بڑا بننے کا شوق دل کو بے تاب نہیں کرے، تو کتابوں پر کتابیں ختم ہوتی جاتی ہیں، ایک درجے سے دوسرے درجے کا سالانہ سفر بھی ہوتا رہتا ہے، مگر شخصیت میں کوئی ارتقا نہیں ہوپاتا ہے۔ انجام کار نہ مدرسوں سے رجال بن کر نکلتے ہیں، اور نہ امت کے قحط الرجال میں کچھ کمی ہوتی ہے۔
اپنی منزلت اور وقت کی قیمت کا صحیح اندازہ نہ ہو تو لایعنی مشغلوں کا انبار زندگی کی بے شمار قیمتی ساعتوں کو اپنے نیچے دبا دیتا ہے۔ ایک جگہ پڑھا کہ انسان پوری زندگی میں جس قدر مطالعہ کرسکتا ہے، اس کا پچھتر فی صد پندرہ سال سے پچیس سال کی عمر کے دورانئے میں کرسکتا ہے، افسوس ہوا کہ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو اس دورانئے سے پہلے ہی معلوم کیوں نہ ہوئی، کہ لاحاصل کج بحثیوں کے بجائے بہت سی ضروری اور مفید کتابوں کا مطالعہ کرلیا ہوتا۔
دینی مدارس کا اصل اور متفق علیہ مقصد ایسے علماء کی تیاری ہے، جو بدلتے ہوئے حالات میں بھی امت کی دینی رہنمائی کرسکیں۔ اس کے لئے خود مدرسے کے نظام تعلیم اور طریقہ تربیت میں بہت سی تبدیلیاں درکار ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس بھی عام طور سے پایا جاتا ہے، اور انہیں انجام دینے کی خواہش بھی ہر جگہ محسوس کی جاتی ہے، اور اس سلسلے میں وقتا فوقتا کانفرنسیں اور سیمینار بھی ہوتے ہیں، مگر مختلف اسباب کی وجہ سے مطلوب تبدیلیوں کی طرف خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوپا رہی ہے۔ اس جمود کا سب سے بڑا نقصان طلبہ کو پہونچتا ہے، کہ وہ زندگی کے اہم ترین مرحلے میں تعمیر ذات کے متعدد مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔
’’اپنی شخصیت خود بنائیں‘‘ کے مخاطب دینی مدارس کے طلبہ ہیں، اس موضوع پر کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے طلبہ اور مستقبل کے علماء کو اپنی شخصیت کی تعمیر کی کچھ راہیں خود نظر آجائیں، کہ اگر مدرسہ کا ماحول معاون وسازگار نہ ہو، اور تربیت ذات کا کوئی ماہر میسر نہ آئے تو اس کتاب میں دئے گئے نسخے کسی حد تک ان کی رہنمائی کرسکیں۔ شخصیت کے ارتقا کے موضوع پر عالمی شہرت یافتہ کتابوں کا مطالعہ اور خود اپنی شخصیت میں رہ جانے والی کمیوں کا باریک بینی سے جائزہ اس کتاب کی تیاری میں بہت کام آیا۔
دینی تعلیم گاہوں سے جڑے ہوئے طلبہ کو اس کتاب کے مطالعہ سے کس قدر فائدہ ہوگا، یہ تو مطالعہ کرنے والے طلبہ ہی صحیح بتاسکیں گے، تاہم اسے لکھنے کے بعد خود مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر اس طرح کی رہنمائی اور طالب علمی کا وہ گزرا ہوا زمانہ دوبارہ مل جائیں تو شاید وہ بہت سے کام کئے جاسکیں جن کے نہیں کرنے کی حسرت دل کو اکثر بے چین رکھا کرتی ہے۔ وما توفیقی الا باللہ

گفتگو کریں، گفتگو کا احترام بھی کریں

گفتگو کریں، گفتگو کا احترام بھی کریں
محی الدین غازی
چھٹی صدی ہجری کی مشہور شخصیت ابن ہبیرہ کو اللہ نے علم سے بھی نوازا تھا اور منصب سے بھی، وہ اپنے زمانے کے بڑے فقیہ تھے، اور عباسی خلیفہ کے سب سے بڑے وزیر، خاکساری اتنی تھی کہ خلیفہ نے سید الوزراء کا خطاب دیا تو اسے لینا گوارا نہیں کیا کہ قرآن مجید میں حضرت ہارون کو وزیر کہا گیا ہے، تو میں خود کو وزیروں کا سردار کیسے کہلواسکتا ہوں۔
وزیر ابن ہبیرہ کی علم دوستی بہت مشہور ہے، ان کے یہاں روزانہ اہل علم کی مجلس منعقد ہوا کرتی تھی، جس میں بڑے علماء ومحققین شریک ہوتے تھے، اور سب کی عزت وتکریم ہوا کرتی تھی۔
ایک دن علمی مجلس آراستہ تھی، دوران گفتگو وزیر ابن ہبیرہ نے تذکرہ کیا کہ فلاں مسئلہ میں امام احمد کی رائے باقی تینوں اماموں سے مختلف ہے، اس پر ایک مالکی فقیہ ابومحمد اشيري نے اختلاف کیا اور کہا کہ امام مالک سے بھی یہ رائے منقول ہے، دیگر تمام علماء نے ابومحمد اشيري کی بات سے اتفاق نہیں کیا، وزیر ابن ہبیرہ نے امام احمد کے تفردات پر مشتمل کتابیں منگا کر سامنے رکھ دیں، ان سے وزیر ابن ہبیرہ کی بات کی تائید ہوتی تھی، لیکن ابومحمد اشيري اپنی رائے پر بضد رہے، اس پر وزیر ابن ہبیرہ کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا، کیا تم چوپائے ہو، یہ ساری کتابیں اور یہ سارے امام ایک بات پر متفق ہیں، اور تم بنا دلیل وحوالہ اس علمی مجلس میں اختلاف کھڑا کررہے ہو۔ اس کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔
دوسرے دن جب مجلس آراستہ ہوئی، اور تمام اہل علم جمع ہوئے، تو لوگوں نے دیکھا کہ وزیر ابن ہبیرہ بہت پریشان نظر آرہے ہیں، درس کا آغاز ہوا چاہتا تھا کہ انہوں نے نہایت درد بھرے لہجے میں کہا، فقیہ محترم ابومحمد اشيري نے کل کی گفتگو میں بحث وتحقیق کے آداب اور اصولوں کو نظر انداز کردیا تھا جو ان کے شایان شان نہیں تھا، اس پر مجھے غصہ آگیا اور میں نے وہ نازیبا بات کہہ دی جو مجھے ہرگز نہیں کہنی چاہئے تھی، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے بدلہ لیں اور مجھے بھی بھری مجلس میں اسی طرح کی بات کہہ دیں جس طرح کی میں نے انہیں کہی تھی۔ میں آپ لوگوں سے بہتر نہیں ہوں، یہاں ہم سب برابر ہیں۔
وقت کے فقیہ اور دربار خلافت کے سب سے بڑے وزیر کی زبان سے یہ سننا تھا کہ پوری مجلس سسکیوں میں ڈوب گئی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور زبانوں پر دعائیں جاری ہوگئیں۔ ابومحمد اشيري نے کہا حضرت آپ ایسا نہ کہیں، غلطی میری تھی، اور معافی تو مجھے مانگنی چاہئے تھی۔ لیکن وزیر ابن ہبیرہ کی زبان پر بس ایک ہی بات تھی، مجھ سے برابر کا بدلہ لو۔ اس پر ایک صاحب نے تجویز دی کہ اگر زبانی بدلہ لینے پر وہ آمادہ نہیں تو کچھ فدیہ طے ہوجائے۔ وزیر ابن ہبیرہ نے کہا وہ بھی ان کو ہی طے کرنا ہوگا۔ اس پر ابومحمد اشيري نے کہا حضرت آپ کے میرے اوپر اتنے زیادہ احسانات ہیں، بھلا میں فدیہ کیا طے کروں، تاہم آپ کا اصرار ہے تو عرض کردیتا ہوں کہ میرے ذمے سو دینار قرض ہیں۔ وزیر ابن ہبیرہ نے ان کو سو کے بجائے دو سو دینار دئے۔ اور کہا میں دعا کرتا ہوں اللہ مجھے بھی معاف کرے اور آپ کو بھی معاف کرے۔
دلیل اور حوالے کے بغیر کوئی بات کہنا کسی کو زیب نہیں دیتا، اور اگر بات دلیل اور حوالہ کے خلاف ہو تو اپنی رائے پر اصرار کرنا بھی بحث وتحقیق کے شایان شان نہیں ہے۔ اس طرح کی ضد اور ہٹ دھرمی سے تحقیق کا سفر تو متاثر ہوتا ہی ہے گفتگو کا ماحول بھی مکدر ہو جاتا ہے، خاص طور سے اس کو شدید الجھن ہوتی ہے جو دلیل سے محبت کرتا ہے، اور دلائل کی تلاش میں اپنے آرام کی قربانی دے چکا ہوتا ہے۔ بایں ہمہ اگر دلیل وحوالہ نہیں ہونے کے باوجود کوئی اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے، تو یہ بہرحال اس کا حق ہے، اور اس کی بنا پر اسے زدو کوب کئے جانے کا جواز ہرگز نہیں نکلتا ہے۔
علمی وفکری گفتگو کے لئے سب سے خطرناک چیز تشدد ہے۔ تاریخ میں جسمانی تشدد کی مثالیں بھی ملتی ہیں، امام احمد بن حنبل کے ساتھ تشدد ان دانشوروں نے کیا جو ذہین ہونے کے باوجود پرامن گفتگو کرنے کا ظرف نہیں رکھتے تھے۔ ڈاکٹر طہ جابر علوانی نے کئی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ مختلف زمانوں میں اپنے فکری اور سیاسی مخالفوں پر ارتداد کا الزام لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا آمریت پسندوں کا مشغلہ رہا ہے۔
زبانی تشدد تو اتنا عام ہے کہ گویا ہمارے مزاج میں رچ بس گیا ہے، وزیر ابن ہبیرہ نے بلا دلیل اختلاف کرنے والے کو بس چوپایہ کہا، اور اس پر بے حد ندامت کا اظہار کیا، یہ ان کی شرافت اور اعلی ظرفی تھی۔ جبکہ ہم زبانی تشدد کے اتنے زیادہ عادی ہوگئے ہیں کہ دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے والے کو بھی محض چوپایہ کہہ دینے سے ہمیں تسکین نہیں ہوسکتی ہے۔ نیتوں پر حملے، کفر کے فتوے، قرآن وسنت کے انکار کا الزام، فرقہ اہل سنت والجماعت سے اخراج، کسی فکر سے اختلاف ہوجائے تو وہ فتنہ، کسی شخص سے اختلاف ہوجائے تو وہ زندیق۔ تشدد کے سارے لہجے استعمال کرنے کے بعد بھی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہر فرقے نے بہتر گمراہ فرقوں کی فہرست بنا رکھی ہے، جس میں اپنے سوا سب کو شامل کیا ہے۔
دلیل کا احترام اور دل کی کشادگی، حقیقت کی جستجو اور لہجے کی شائستگی گفتگو کے ماحول کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ کسی قوم میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی قوت کا کمزور ہوجانا بہت سی خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اپنی قوت برداشت بڑھانے اور پرامن گفتگو کا دامن تھامنے کی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ایک رائے رکھتے ہیں اور ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو ان کی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔
گفتگو کا آغاز سلام سے کرنے والوں کی گفتگو بھی امن وسلامتی سے مزین ہونی چاہئے۔

حج کا پیغام: حرکت اور اجتماعیت

حج کا پیغام: حرکت اور اجتماعیت
محی الدین غازی
ہر عبادت کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، جو اسے دوسری عبادتوں سے ممتاز کردیتی ہیں،اور اس طرح ہر عبادت کا پیغام اپنی خصوصیات کے ذریعہ اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے، حج کی عبادت اپنے اندر بہت سارے پیغامات سموئے ہوئے ہے، ذیل کی تحریر میں حج کے دو خاص پیغاموں کی ترسیل کی کوشش کی گئی ہے۔
حج حرکت والی عبادت ہے، جس طرح نماز سکون والی عبادت ہے، امت کی زندگی میں حج کی حرکت اور نماز کا سکون دونوں ضروری ہیں ،نماز میں زیادہ حرکت نماز کو فاسد کردیتی ہے، جبکہ حج میں زیادہ حرکت مطلوب ہوتی ہے، دور دراز علاقوں سے مکہ کی جانب سفر، وہاں منی عرفات مزدلفہ اور پھر منی جانا، بار بار جمرات جاکر کنکری مارنا، قربانی کرنا،بار بار خانہ کعبہ کا طواف کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، کہیں چلنا، کہیں تیز چلنا، غرض ہر وقت ایک مسلسل حرکت، یہ حرکت صرف حج کی خصوصیت ہے۔حج کی مسلسل حرکت یہ بتاتی ہے کہ خانہ کعبہ سے رشتہ رکھنے والی امت کے لئے جمود اور بے عملی زیبا نہیں ہے، اسے دین کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل رہنا ہے۔
حج سب سے بڑی اجتماعیت اور سب سے زیادہ اجتماعیت والی عبادت ہے، سب سے بڑی اس پہلو سے کہ سب سے زیادہ امتی اسی موقعہ پر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، سب سے زیادہ اس پہلو سے کہ یہاں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت اختیار کرنے کے لئے ذرا بھی رخصت نہیں ہے، دوسری عبادتوں میں بھی اجتماعیت کی تاکید ہے لیکن اس کی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر جماعت اور اجتماعیت کے ساتھ ادائیگی نہ ہوسکے تو انفرادی طور پرادا یا قضا کرلیں، جماعت چھوٹ جائے تو بعد میں نماز تنہا ادا کی جاسکتی ہے، رمضان میں سب کے ساتھ روزے نہ رکھ سکیں تو دوسرے دنوں میں تنہا رکھ سکتے ہیں، لیکن حج جب بھی کرنا ہے سب کے ساتھ کرنا ہے ، کسی بھی صورت میں سال کے دوسرے دنوں میں جاکرحج نہیں کرسکتے، تنہا بھی نہیں اور گروپ کے ساتھ بھی نہیں۔ ایک حج چھوٹ جائے تو پورے سال انتظار کرنا ہے دوسرے حج کی تاریخوں کا، کیونکہ یہاں کامل اجتماعیت مطلوب ہے، عالم گیر اجتماعیت۔ متعین تاریخوں میں پوری دنیا سے سارے آنے والوں کو آنا ہے، اور ایک ترتیب کے ساتھ سارے کام انجام دینا ہے، حج میں آدمی کسی ایک امام کی اقتدا نہیں کرتا ہے، بلکہ سب مل کرایک ساتھ آگے بڑھتے ہیں، ثم افیضوا من حیث افاض الناس۔ پورا مجمع ایک شخص بن جاتا ہے، جسے معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کیا کام انجام دینا ہے۔ نماز سب کے صف بستہ ہونے کا منظر ہے، تو حج مل کر اقدام کرنے کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
حج کے موقعہ پر یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے، کہ امت نے اختلافات کوحقیقت سے زیادہ اہمیت دے رکھی ہے ، جب حج کے طریقہ پر سب کا اتفاق ہے تو آخر ان کے درمیان ہر سطح پر اتحاد واتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے، حج کا موقعہ اتحاد امت کی تجدید کا موقعہ ہے، کہ اس وقت پوری امت کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے ایک زبردست انتظام ہے ، اس کے ذریعہ ایک امت ہونے کا احساس ہر سال تازہ ہوتا ہے، گوکہ خاکی حدوں اور خود ساختہ لکیروں کے پجاری حج کے اس پہلو کو بے اثر بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
حج کے موقعہ پر یہ حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ نماز کی مختلف صورتوں پر جو شدید قسم کے اختلافات اور جھگڑے امت کے مختلف گروہوں میں پائے جاتے ہیں، وہ سب بے معنی ہیں، اور رائی کا پہاڑ بنانے کے مثل ہیں، حقیقت میں فرق بہت معمولی ہے، اس قدر معمولی کہ اس فرق کے ہوتے ہوئے بھی پوری امت ایک امام کے پیچھے ایک جماعت بناکر نماز ادا کرسکتی ہے۔ نماز میں بندہ قبلہ کی طرف رخ کرکے اپنے آپ کو مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز سے وابستہ کرلیتا ہے، حج کے موقعہ پر بندہ حسب توفیق مسجد حرام میں ادا کی جانے والی نماز میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی ہر مسجد مسجد حرام کا امتداد ہے، وہی سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
ہر سال حج پر جانے والے سارے حاجیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس روشنی کو عام کریں جو وہ امت کے مرکز میں حج کے موقعہ پر دیکھتے ہیں، وہ اجتماعیت کے مبلغ اور حرکت وعمل کے خوگر بن کر لوٹیں ، کیونکہ امت ایک طرف شدید قسم کے جمود میں مبتلا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا شیرازہ بکھرچکا ہے اورپوری امت بدترین قسم کی فرقہ بندی کا شکار ہے، دل ودماغ میں پلنے والے خیالات عقیدہ بن گئے ہیں، فرقوں اور جماعتوں نے امت سے زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ہر شخص ایک چھوٹے سے کنویں میں محصور ہے اور اسی کو وہ سمندر سمجھ بیٹھا ہے، امت کے افراد کوکنویں کی اس ذہنیت سے باہر نکالنا ضروری ہے، اور یہ کام حجاج کرام بہت بہتر طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ امت ایک بہت وسیع سمندر ہے یہ کوئی چھوٹے چھوٹے تالابوں اور کنووں کا مجموعہ نہیں ہے، وہ اس وسیع سمندر کے خوش نما مناظر دیکھ کر اور وہاں کی فرحت بخش فضا کا لطف لے کر آتے ہیں۔
قرآن مجید کی آیت ، لیشہدوا منافع لھم ، پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ حج کے ذریعہ امت کتنی زیادہ منفعتوں کا مشاہدہ کرسکتی تھی لیکن مصلحت پسندوں نے بہت سارے حجاب حائل کرڈالے۔ یا رب ، ان حجابوں کو ہٹادے اور محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا دے۔

قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان

قربانی کی چاہ اور قربانی کی شان
محی الدین غازی
اللہ کے دین اور اس کے راستے کی ایک شان ہے، دین خدا اور راہ خدا کے لئے کچھ بھی کیا جائے یا دیا جائے شایان شان ہونا چاہئے، یہ نکتہ عرب کے ایک بدو کی سمجھ میں آیا اور خوب آیا، اس کے پاس پچیس اونٹ تھے جن کی کل زکاۃ ایک سال کا اونٹ کا ایک بچہ ہوتی تھی، زکاۃ کی وصولی پر مامور صحابیِ رسول نے جب اس سے حسب قاعدہ ایک سال کا اونٹ کا بچہ مانگا تو اس نے حیران ہوکر کہا، اللہ کے راستے میں ایک سال کا بچہ؟ یہ تو نہ دودھ دے نہ سواری کے کام آئے۔ اللہ کے راستے کے لئے لینا ہے تو بھرپور اور توانا اونٹنی لے کر جائیے۔
دل میں چاہ ہو تو صدیق اکبر جیسا ایک فرد اپنا سارا اثاثہ راہ خدا میں لاکر پیش کردیتا ہے، اور چاہ سے دل خالی ہو تو پوری قوم مل کر ایک عدد جانور قربان کرنے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی روداد یہی بتاتی ہے۔ سورہ بقرہ میں گائے کی قربانی کے واقعہ کو ہم بار بار پڑھتے ہیں، لیکن عموماً ہماری توجہ بنی اسرائیل کے سوالوں تک جاکر کے رک جاتی ہے اور ہم بنی اسرائیل کو ملامت کرتے ہوئے بات ختم کردیتے ہیں کہ کس قدر غیر ضروری سوالات وہ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ بنی اسرائیل اپنی اس عادت کے لئے قابل ملامت ہیں۔
یہ سوالات بے تکے تھے اور ایک بگڑی ہوئی قوم کے تھے جس کے لئے نبیوں کو قتل کرنا آسان تھا، لیکن مل کر ایک گائے کو قربان کرنا بار گراں تھا۔ تاہم ان سوالوں کے جوابات بڑے اہم ہیں کیونکہ وہ اللہ کے جوابات ہیں جو ایک برگزیدہ پیغمبر کے ذریعہ پہونچائے گئے ہیں۔ امت مسلمہ کے لئے بھی وہ بہت اہم ہیں، کیونکہ انہیں قرآن مجید میں قدرے تفصیل کے ساتھ امت کی نصیحت کے لئے محفوظ کیا گیا ہے۔
ان جوابوں سے نصیحت لینے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بندہ خدا خود کو بھی قربانی کے لئے مطلوب اس گائے کے ساتھ قربان گاہ میں کھڑا کرکے دیکھے، اور سوچے کہ اگر وہ گائے کی جگہ اپنی زندگی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے پیش کرتا ہے، تو وہ اور اس کی زندگی ان جوابوں پر کتنے صادق آتے ہیں۔
پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے نہ بالکل ہی کم سن ہو اور نہ بوڑھی ہو بلکہ درمیانی عمر کی ہو، گائے کی طرح انسان کی زندگی کے بھی تین حصے ہیں بکر، فارض اور عوان۔ کمزور بچپن، لاغر بڑھاپا اور دونوں کے بیچ کی جوانی اور توانائی سے بھرپور بہترین عمر۔ اللہ کے لئے جو اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں، اور جو اپنی اس زندگی کو لگا کر اللہ کے دین کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں انہیں بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کی زندگی کا انتخاب تو ضرور ہی کرنا ہوگا۔ اللہ کے حضور نہ سن رسیدہ گائے قابل قبول ہے اور نہ جوانی سے خالی انسانوں کا محض بڑھاپا۔ اس کے یہاں جوانیوں کی قربانی مطلوب ہے۔ بلاشبہ جوانی اگر خدا کی نذر کی گئی تو اس کے طفیل میں بچپن اور بڑھاپا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو اپنی جوانی اللہ کے لئے لگاتا ہے، اس کا بڑھاپا اللہ کے لئے لگانا بھی لوگوں کے لئے اچھی مثال بن جاتا ہے۔ لیکن جوانی محض کسب معاش، صرف عیش وعشرت یا بس خواب غفلت کی نذر کرکے اگر بڑھاپا قربان کرنے آئے جو خود اپنے کسی مصرف کا نہیں رہا اور جس کی خلق خدا کی نگاہ میں کوئی قدر وقیمت نہیں رہی تو اس قربانی کی اللہ کے یہاں کیا وقعت ہوگی؟
ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قربانی کی گائے اس قدر خوش رنگ ہو کہ دیکھنے والوں کے دل ونگاہ خوش ہوجائیں۔ گویا قربانی کا ایک ضروری عنصر جمال بھی ہے۔ اپنی ساری زندگی اور تمام تر توانائیاں اللہ کی راہ میں وقف کردینے والے کی ہر ہر ادا دلکش اور ’’تسرّ الناظرین‘‘ والی ہو، وہ نماز پڑھے تو مت پوچھو کہ اس کی نماز کتنی خوبصورت ہو، وہ صدقہ دے تو اس خوبصورتی سے کہ لینے والے کو ذرا تکلیف نہ ہو، اور وہ جب دین کی بات کرنے کے لئے لب کشا ہو تو گفتگو ایسی حسین ودلنواز ہو کہ سننے والوں کا دل موہ لے، غرض اس کا گفتار، اس کا کردار اور اس کی شخصیت کا ہر ہر زاویہ حسن وجمال سے بھرپور ہو۔ اس کی عبادت بھی جمیل ہو اور اس کی دعوت بھی حسین ہو۔ اللہ کے لئے کوئی کام کیا جائے تو اس میں بھونڈا پن اور پھوہڑ پن ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ گائے لاغر اور پامال شدہ نہ ہو، اس کی صحت زمین جوتنے اور پانی کھینچنے کی نذر نہ ہوگئی ہو۔ اللہ کے دین کا کام کرنے کا جذبہ رکھنے والے بھی ایسا نہ ہو کہ اپنے بہترین اوقات اور عمدہ ترین توانائیاں زمین جوتنے اور پانی کھینچنے جیسے کاموں میں خرچ کرنے کے بعد بچھا کھچا وقت، تھکا تھکا سا دماغ اور نحیف ولاغر توانائیاں دین خدا کے لئے پیش کرنے آئیں۔ کیونکہ اس معیار کی چیزیں کوڑے دان میں تو ڈالی جاسکتی ہیں، کسی عظیم قربان گاہ میں پیش نہیں کی جاتی ہیں۔
اور یہ بات کہ گائے بے عیب ہو داعی حق کو اس کے تمام تر اخلاقی عیوب کی طرف متوجہ کرتی ہے، جانور کی قربانی میں جسمانی عیوب کی فکر کی جاتی ہے، لیکن انسانی زندگی جب اللہ کی راہ میں وقف کی جارہی ہو تو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنے کی فکر بہت زیادہ ضروری ہوجاتی ہے۔ اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ زندگی اللہ کے دین کے لئے کتنی ہی مصروف رکھی جائے، اس کی حیثیت اس جانور کی سی ہوتی ہے جو بری طرح عیب دار ہو۔

بچوں کو کاموں کا دوست بنائیں

بچوں کو کاموں کا دوست بنائیں
محی الدین غازی
بچے جنت کے پھول ہوتے ہیں، اور یہ پھول جیسے بچے اس وقت بہت زیادہ خوب صورت اور پیارے لگتے ہیں، جب وہ کسی بوڑھے بزرگ کی خدمت کررہے ہوتے ہیں۔ بچوں کے اندر بزرگوں کی خدمت کا جذبہ خاص طور سے پیدا کرنا چاہئے، یہ والدین کی ذمہ داری ہے۔ بزرگوں میں کسی طرح کا تعصب برتنے کے بجائے سب سے محبت، سب کا احترام اور سب کی خدمت کی ترغیب دی جائے۔ بچے اپنے نانا نانی کی بھی خوب خدمت کریں اور اپنے دادا دادی کی بھی خوب خدمت کریں، نیز خاندان اور محلے کے ہر عمر رسیدہ بزرگ کی خدمت کے لئے تیار رہیں۔
بڑھاپا تنہائی کا احساس لاتا ہے، بچے بوڑھوں کی دل لگی کا بہترین سامان بنتے ہیں، ان سے قربت خود بچوں کی بہترین نشوونما کے لئے بہت مفید ہوتی ہے، زندگی بھر کے قیمتی تجربات ان کو مفت میں ملتے رہتے ہیں، سلیقے سے زندگی گزارنے کے طور طریقے آتے ہیں، اور اعلی اخلاقی روایتیں اپنا سفر روانی کے ساتھ جاری رکھتی ہیں۔ اگر آپ بچوں کے ساتھ خیر خواہی اور بوڑھوں کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہوں، تو بچوں کو بوڑھوں سے محبت کرنا سکھا دیجئے۔
گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے بچوں کو گھر کے کاموں میں بھی حصہ لینا چاہئے۔ بچوں کے لئے بھی اور گھر کے لئے بھی بہتر یہ ہے کہ بچوں کو جتنی جلدی ممکن ہو گھر کا فعال ممبر بنالیا جائے، بچوں کو بچپن کے حوالے سے یا تعلیم کے بہانے سے گھر کی تمام ذمہ داریوں سے یکسر لاتعلق کردینا کئی پہلووں سے نامناسب ہے۔
جو بچے گھر کے کام کرتے ہیں، ان کا گھر سے جذباتی تعلق بڑھتا ہے، اور یہ احساس ترقی پاتا ہے کہ وہ گھر کے ایک ذمہ دار فرد ہیں، اور گھر کے در ودیوار میں ان کی محنت اور پسینہ شامل ہورہا ہے، جبکہ گھر کی ذمہ داریوں سے لاتعلق رہنے والے بچوں کا خود اپنے گھر سے تعلق یک گونہ کمزور ہوتا ہے۔
تعلیم کے ساتھ گھر کے کام بھی کرنے سے وقت کو بابرکت بنانے کا ہنر ترقی پاتا ہے۔ کیونکہ وقت میں برکت کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ ترجیحات میں توازن رکھتے ہوئے آپ وقت کا کتنا زیادہ استعمال کرسکتے ہیں۔
جو بچے گھر کے کام کرتے ہیں، وہ اپنے بڑوں کی محبت کو زیادہ محسوس کرپاتے ہیں، کیوں کہ انہیں روز یہ تجربہ ہوتا ہے کہ ان کے بڑے ان کے لئے کس قدر مشقت اٹھاتے ہیں۔ بڑوں کا ساتھ دینے اور ان کی تھکن میں روز شریک ہوتے رہنے سے رشتوں میں مضبوطی آتی ہے۔
بہت سے گھروں میں لڑکوں کو تعلیم کے لئے فارغ کردیا جاتا ہے، اور لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی سونپ دئے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں بھائیوں کی خدمت کو بہنوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے، جب لڑکے اور لڑکیاں دونوں یکساں طور سے تعلیم میں مصروف ہیں، تو گھر کے کام بھی ان میں تقسیم ہونا چاہئیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ گھر کے لڑکے بھی اپنے گھر میں جھاڑو لگائیں، کپڑے اور برتن دھوئیں، آٹا گوندھیں اور کھانا پکانے میں شامل ہوں۔ اور یہ کبھی کبھی نہیں ہو بلکہ روز کا معمول ہوجائے، ہاں اگر باہر کے کام لڑکوں پر زیادہ ہوں تو گھر کے کاموں میں اسی حساب سے تخفیف کی جاسکتی ہے۔
لڑکیوں پر سارا کام ڈال دینے کی ایک منطق یہ دوہرائی جاتی ہے، کہ لڑکیوں کو آگے چل کر گھر سنبھالنا ہوتا ہے اس لئے انہیں خاص طور سے امور خانہ داری کا عادی اور ماہر بنایا جائے، یہ منطق اپنی جگہ درست ہے، لیکن یہ مستقبل کا تقاضا ہے، اس سے پہلے حال کا تقاضا یہ ہے کہ گھر کے کاموں میں سب لوگوں کی شرکت ہونی چاہئے، نہ والدہ پر سارا بوجھ آئے اور نہ لڑکیوں پر، بلکہ سب مل بانٹ کر کام کرنا اور مل بانٹ کر کھانا کھانا سیکھیں۔
اگر بچوں کے لئے گھر کے کام تفریحی مشغلہ بن جائیں، تب تو بہت ہی اچھا ہو، بچے گھر کے کاموں کو ایک بوجھ سمجھنے کے بجائے سامان تفریح کے طور پر انجام دینے لگیں، اس کے لئے گھر کے بڑوں کو اپنے رویہ سے بتانا ہوگا کہ انہیں گھر کے کاموں میں بہت لطف ملتا ہے۔ جن گھروں میں بڑے گھر کے کاموں سے جی چراتے ہیں، اور ان کے درمیان کاموں کو لے کر جھگڑے ہوتے ہیں ان گھروں میں بچے بھی خوش دلی سے کوئی کام نہیں کرتے۔ لیکن جن گھروں میں بڑے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں، ان گھروں میں بچوں کے درمیان بھی کاموں کو لے کر مسابقت ہوتی ہے۔ گھر تو ہر حال میں چلتا رہتا ہے، دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ چال بے ڈھنگی ہے یا حسین وجمیل۔
مشترک خاندانوں میں جہاں بڑوں کے درمیان کاموں کی کشمکش رہتی ہے اور ہر کوئی اپنا دامن بچانا چاہتا ہے، وہاں کچھ بڑے اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی گھر کے کاموں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ تربیتی لحاظ سے خود بچوں کے لئے مناسب نہیں ہے، اس طرح ان کے اندر خود غرضی پیدا ہوتی ہے، اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے والا مزاج تیار ہوتا ہے۔ جس گھر میں بچے ہوں وہاں کاموں کی ایک منصفانہ تقسیم بچوں کے درمیان بھی کردینا چاہئے، ساتھ ہی جو بچے اپنے حصہ سے زیادہ کام کریں ان کی خوب ہمت افزائی بھی ہو۔
گھر کے ماحول میں بچوں کو انسانوں کا درد محسوس کرنے کی تربیت بھی ملنی چاہئے، اگر کوئی فرد بیمار ہوجائے تو سب بچے اس کی تیمار داری میں بھر پور حصہ لیں۔ اس تیمارداری میں بھی بڑوں کو اپنے عمل سے اچھا نمونہ پیش کرنا چاہئے۔
بچوں کے دل میں گھر کے کام کرنے اور بڑے بوڑھوں کی خدمت کرنے کا شوق خوب پیدا کیا جائے، تاہم یہ مناسب نہیں ہے کہ ان کے بڑے بھائی بہن وغیرہ ان سے وقت بے وقت اپنی ذاتی خدمت لیں، کیونکہ جب گھر کے سینئر نوابی انداز اختیار کرکے ذرا ذرا سے کاموں کے لئے اپنے سے کم عمر بچوں پر احکام جاری کرتے ہیں، تو بچوں کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے، اور انہیں لگتا ہے کہ ان سے نوکروں والا سلوک کیا جارہا ہے، پھر وہ بھی جلد از جلد نواب بننے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں، اس طرح ہر چھوٹا اپنے بڑے کے نوابی مزاج کا نشانہ بنتا ہے۔ گھر میں بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنا ذاتی کام خود کریں، اور گھر کے کام سب کریں۔ ایک دوسرے کے کام بھی خوب آئیں مگر اپنی خوشی سے۔ غرض بچوں کے اندر شروع سے ہی ذاتی خدمت کے بجائے اجتماعی کاموں میں شرکت کا ذوق وشوق پیدا کیا جائے۔ انہیں کاموں کا دوست بنایا جائے کاموں کا دشمن نہیں۔

لوگ تعریف کریں، تو آپ کیا کریں؟

لوگ تعریف کریں، تو آپ کیا کریں؟
محی الدین غازی
انسان کے لئے بہت بڑا فتنہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے سلسلے میں خوش فہمی کا شکار ہوجائے، اور اسے اپنی ذات خود اپنی نگاہ میں عیوب سے پاک اور کمالات سے متصف نظر آنے لگے۔ نفس کی مٹی میں اس فتنے کے بیج تو شیطان بوتا ہے، لیکن دوسروں کی تعریف اس بیج کو سیراب کرکے تناور درخت بنادیتی ہے، اس کے بعد انسان کی ساری توانائی ’’اپنے منھ اپنی تعریف‘‘کے ذریعہ اس درخت کی پرورش میں خرچ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کبھی انسان اپنے جی میں اتراتا ہے اور کبھی سب کے سامنے اتراتا ہے۔
یاد رہے، تعریف سے یہاں وہ تعریف مراد نہیں ہے، جو کوئی کسی کے منھ پر کرتا ہے، کہ اس شخص سے منھ پھیر لینا، یا اس کا منھ کسی اور طرف پھیر دینا فورا مطلوب ہے۔ یہاں دراصل وہ تعریف مراد ہے جو لوگوں کے درمیان ہونے لگے، اور گردوپیش میں سنائی دینے لگے۔ ضروری سوال ہے کہ ایسے میں پھر کیا کرنا چاہئے؟
آٹھویں صدی ہجری کے شیخ ابن عطاء اللہ اسکندرانی رحمۃ اللہ علیہ اسلامی تاریخ کے ممتاز حکماء میں شمار ہوتے ہیں، وہ تزکیہ نفس اور تربیت ذات کے ماہر اور دانائے راز تھے، ان کی کتاب ’’الحکم العطائیۃ‘‘ میں حکمت ودانائی کے شاہ پارے سجے ہوئے ہیں، اور ماہرین تربیت کے بہت کام آتے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر بھی ان کے یہاں ہمیں قیمتی رہنمائی ملتی ہے۔ یہاں ہم قارئین کی خدمت میں ان کے الفاظ اور اپنا استفادہ پیش کریں گے۔
دوسروں کی تعریف سن کر مگن ہو جانے والے اپنے لئے غفلت کا سامان تیار کرتے ہیں، ابن عطاء اللہ اس فتنے سے نکل بھاگنے کے راستے بتاتے ہیں، وہ یاد دلاتے ہیں کہ انسان خود اپنے بارے میں جو کچھ جانتا ہے وہی یقین کا درجہ رکھتا ہے، اور دوسرے اس کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ محض ان کا گمان ہوتا ہے جو صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے، اس لئے انسان ہمیشہ یہ دیکھے کہ اس کے بارے میں خود اس کی اپنی معلومات کیا کہتی ہیں، اور پھر اپنی معلومات کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی اصلاح وتعمیر کے منصوبے بنائے۔ جو منصوبے درست معلومات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں وہی کامیابی کی نوید سناتے ہیں، اور جو منصوبے غلط معلومات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، ان کا ناکام اور بے نتیجہ ہونا عین ممکن ہوتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کے الفاظ ہیں:’’سب سے نادان شخص وہ ہے جو اپنے سلسلے میں دوسروں کی ظنی معلومات کی بنا پر اپنی یقینی اور قطعی معلومات پس پشت ڈال دے‘‘أجهل الناس من ترك يقين ما عنده لظن ما عند الناس.
جب انسان دیکھے کہ لوگ اس کے سلسلے میں محض خوش گمانی کی بنیاد پر اس کی تعریف کررہے ہیں، اور اس کو خدا ترس، نیک وپارسا، مرد کامل اور علامہ وقت قرار دے رہے ہیں، تو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی تنقیدی نگاہ سے دیکھے، وہ اپنے ان عیوب اور خامیوں پر نظر رکھے جو اس کے اندر موجود ہیں، اور جن سے وہ اچھی طرح واقف ہے، پھر وہ ان کو سختی کے ساتھ نشانہ ملامت بنائے۔ عام حالات میں ہوسکتا ہے خود ملامتی پسندیدہ بات نہیں ہو، لیکن جس وقت دوسرے کسی کی خوبیوں پر روشنی ڈال رہے ہوں اس وقت اس کے لئے اپنی خامیوں کو خود اپنے سامنے لانا بہت ضروری ہوجاتا ہے، ورنہ دوسروں کی تعریف اپنی خامیوں کے لئےحجاب بن جاتی ہے، پھر انسان کو اپنے اندر وہی نظر آتا ہے جو لوگ اپنے اندازے سے بتاتے ہیں اور وہ نظر نہیں آتا جو واقعی ہوتا ہے، اور اس طرح تعمیر شخصیت کا منصوبہ ادھورا اور دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کہتے ہیں:’’لوگ محض اپنے گمان کی بنا پر تمہاری تعریف کرتے ہیں، اس لئے تم اپنے علم ویقین کی روشنی میں اپنے آپ پرنکتہ چینی کرو‘‘الناس يمدحونك لما يظنونه فيك، فكن أنت ذاما لنفسك لما تعلمه منها.
ایک مومن کے لئے انسانوں سے زیادہ خود اپنے علم کی اور سب سے زیادہ اللہ کے علم کی اہمیت ہوتی ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ وہ خوبیاں اس درجے میں اس کے اندر ہیں ہی نہیں جن کا حوالہ دے کر لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں، تو اسے اللہ سے شرم آتی ہے، کیونکہ کوئی اور جانے یا نہ جانے لیکن اللہ تو جانتا ہے کہ وہ ان تعریفوں کے لائق نہیں ہے،اللہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں، اور اللہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ ان تعریفوں سے خوش ہورہا ہے۔ یہیں پر ایک مومن کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے دوسروں کی زبانی اپنی جھوٹی تعریف سے شرماتا ہے، یا ڈھٹائی کے ساتھ علییم وخبیر کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ان ناحق تعریفوں پر یقین کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ابن عطاء اللہ کے الفاظ میں: ’[مومن کی جب تعریف ہورہی ہوتی ہے تو اسے اللہ سے شرم آتی ہے کہ اسے ان خوبیوں سے آراستہ بتایا جارہا ہے جو خود وہ اپنے اندر نہیں دیکھتا ہے‘‘المؤمن إذا مدح استحيا من الله أن يثنى عليه بوصف لا يشهده من نفسه.
لوگوں سے اپنی تعریف سن کر بندے کے سامنے ایک اور اہم حقیقت بے نقاب ہوجانی چاہئے، اسے سوچنا چاہئے کہ میں تو تعریف کا اہل نہیں ہوں پھر بھی اللہ نے میری تعریف کے دروازے کھول دئے ہیں، جبکہ اللہ کے لئے تو ساری حمد ہے، وہی مدح وثنا کا حقیقی سزاوار ہے، اور میں اس محمود حقیقی کی حمد وثنا میں اس قدر کوتاہ ہوں۔ وہ باور کرے کہ اگر لوگوں کے درمیان میری ناحق تعریف ہورہی ہے، تو یہ اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے، کہ میں فرض بندگی کو یاد کروں، اور اپنی تعریف میں خود شریک ہوجانے کے بجائے، اپنی ساری توجہ مدح وثنا کے سزاوار حقیقی کی حمد وتعریف کی طرف مرکوز کردوں، اور اس طرح اس میں مشغول ہوجاؤں کہ مجھے دوسروں کی تعریف سنائی ہی نہیں دے۔بندہ مومن کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی تعریف سننے کا شوق نہیں رکھتا ہے بلکہ اللہ کی تعریف کرنے کا شوق رکھتا ہے، اور اگر اسے کہیں گردوپیش میں اپنی تعریف سنائی دے تو اسے ایک یاد دہانی سمجھ کر وہ اور زیادہ اللہ کی تعریف میں لگ جاتا ہے۔ ابن عطاء اللہ کے الفاظ میں: ’’جب وہ تمہارے نااہل ہونے کے باوجود تمہاری تعریف ہونے دے، تو تم اس کی وہ تعریف کرو جس کا وہ اہل ہے‘‘إذا أطلق الثناء عليك ولست بأهل، فأثن عليه بما هو أهله.
بے حقیقت اور دروغ آمیز تعریفوں سے دھوکہ نہ کھا کر اپنی تعمیروترقی کے لئے فکر مند رہنا افراد پر بھی واجب ہے،اداروں پر بھی اور جماعتوں پر بھی۔ صبح سے شام تک ’’لائیک‘‘ اور ’’بہت خوب‘‘ شمار کرنے اور نفس کو موٹا کرنے کے اس زمانے میں حکیم ابن عطاء اللہ کی نصیحتوں کا مناسب حال ہونا (Relevance) اور بڑھ گیا ہے۔