رشتے داروں میں محبت کیوں نہ ہو؟؟؟

 کچھ باتیں اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ بغیر سمجھے سب لوگوں کی سمجھ میں آجائیں، لیکن لوگوں کی عملی زندگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سادہ سی باتیں زیادہ تر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکی ہیں، بلکہ اعلی تعلیم اور بہترین دماغ رکھنے والے بھی ان کو سمجھنے سے معذور نظر آتے ہیں۔
محبت کے ساتھ رہنے کا فائدہ سب سے پہلے محبت کے ساتھ رہنے والوں کو حاصل ہوتا ہے، اور نفرت کے ساتھ رہنے کا نقصان سب سے پہلے نفرت کے ساتھ رہنے والوں کو اٹھانا پڑتا ہے، یہ جاننے کے باوجود بہت سارے لوگ نفرت کے ساتھ رہنے میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔
جن رشتہ داروں میں آپس میں محبت ہوتی ہے وہ کتنے فائدے میں رہتے ہیں، اس کا تصور بھی وہ لوگ نہیں کرسکتے جو نفرت کے ماحول میں جینے کے عادی ہوجاتے ہیں، اور جن کے دل نفرت کے جذبات سے غذا حاصل کیا کرتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ محبت کے ساتھ رہنے والے رشتہ داروں کے پاس زندگی سے لطف اٹھانے کے مواقع کئی سو گنا زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنے ان رشتے داروں کی بدولت جن سے میرے تعلقات خوش گوار ہیں، زندگی کو اتنا زیادہ انجوائے کیا کہ اگر تعلقات کی خوش گواری شامل حال نہیں ہوتی تو میں زندگی کی بہت ساری لذتوں سے محروم رہتا۔
مجھے لگتا ہے کہ محبت کا رویہ اپنانے کے لئے آدمی کو نفس کے ایک پست مقام سے نکل کر ایک بلندی تک پہونچنا ہوتا ہے، اور اس کی سہل پسند طبیعت اس چڑھائی کے لئے آمادہ نہیں ہوپاتی۔ حالانکہ پہاڑی راستوں کی طرح یہ کوئی مشکل چڑھائی نہیں ہوتی ہے، ایک لمحہ کا فیصلہ ہوتا ہے، اور آدمی بلندیوں کی سیر کرنے لگتا ہے۔ ایک مشہور ماہر تربیت سے جب ایک شوہر نے پوچھا کہ میں شادی کے بعد کچھ سال تک تو اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا پر اب نہیں کرتا ہوں، اس کا علاج بتائیے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ اپنی بیوی سے پھر سے محبت کرنے لگو۔ سچ پوچھئے تو مجھے یہ جواب بہت تشفی بخش لگا۔
محبت کے تعلقات کا بہت زیادہ دارومدار کسی ایک کی سبقت پر ہوتا ہے، بعض مرتبہ شادی کے وقت لڑکی سوچتی ہے کہ میری ساس مجھ سے محبت سے پیش آئے گی تبھی میں اس سے محبت سے پیش آؤں گی، ساس بھی بہو کے متعلق اسی طرح کا ارادہ رکھتی ہے، چنانچہ دونوں کا جی تو یہی چاہتا ہے کہ محبت کے ساتھ رہیں، لیکن پوری زندگی دونوں انتظار کرتے ہوئے گزار دیتی ہیں، اگر بہواس طرح سوچتی کہ میں پہلے دن سے اپنی ساس سے محبت سے پیش آؤں گی کہ وہ بھی مجھ سے محبت سے پیش آنے پر مجبور ہوجائے، تو یقینا وہ اپنی ساس کا دل جیت لیتی۔ مطلب یہ کہ محبت سے پیش آنے کی پہلی ذمہ داری کون قبول کرے یہ بہت اہم بات ہے۔ یاد رہے قرآن مجید میں خیر کے کاموں میں آگے بڑؑھ جانے والوں کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ فاستبقوا الخیرات۔
لوگوں کو اس وقت بڑا تعجب ہوتا ہے جب وہ ساس اور بہو کو محبت کے ساتھ رہتے ہوئے دیکھتے ہیں، یا کسی بہو کو اپنی ساس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور اگر کوئی خاتون اپنی سوکن کی تعریف کرے تب تو لوگ اس کی دماغی حالت پر بھی شک کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ محبت کے ساتھ تو سب کو رہنا چاہئے، خواہ وہ ماں اور بیٹی ہو، شوہر اور بیوی ہوں، ساس اور بہو ہوں، نند اور بھاوج ہوں یا دو سوکنیں ہوں۔ اصل میں ہمارے معاشرے نے بہت سارے رشتوں کے بارے میں لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا ہے کہ یہ باہم کشیدگی اور کھینچا تانی کے رشتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ یکسر غلط ہے، اللہ تعالی نے جتنے رشتے بنائے ہیں وہ سب محبت کی بنیاد پر قائم ہوں تبھی دلکش لگتے ہیں، ورنہ ان کی دلکشی ختم ہوجاتی ہے، ساتھ ہی ان رشتوں سے جڑے رشتہ داروں کی شخصیت بھی پھر اچھی نہیں لگتی ہے۔
گھروں میں کھڑکی اور روشن دان نہیں ہوں اور گرمی کے موسم میں بجلی بھی چلی جائے تو گھٹن کا احساس ہوتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس سے شدید گھٹن اس وقت ہوتی ہے جب گھر میں ساتھ رہنے والوں کے باہمی تعلقات ناخوش گوار ہوں۔ بجلی نہ ہو تو لوگ ہاتھ کے پنکھے جھلتے ہوئے سرکار کو برا بھلا کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کرپاتے۔ لیکن آپس کے تعلقات خوش گوار بنانے کے لئے تو ایک پیش قدمی کافی ہوتی ہے، اور لمحوں میں برسوں کا دل پر جما میل دھل جاتا ہے۔ دل صاف ہوجاتے ہیں، اور صاف دل والے بندے اللہ کو بہت پسند ہیں۔ واللہ یحب المتطھرین۔
ذرا سی زندگی میں دشمنی کیا بغض وکینہ کیا
محبت کے تقاضے پورے ہوجائیں غنیمت ہے

شکر گزاری رشتوں کو مضبوط کرتی ہے

 
یہ بالکل صحیح ہے کہ انسان کو بے غرض ہونا چاہئے، اور احسان مندی کی توقع کے بغیر بے لوثی کے ساتھ احسان کرتے رہنا چاہئے، یہ بھی درست ہے کہ نیکی کو جتانے سے نیکی ضائع ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنی بڑی نیکی کیوں نہ ہو۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ بھلائی کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے شکر گزاری کی شرط لگانا کم ظرفی کی دلیل ہے۔ درحقیقت بندوں کے ساتھ نیکی کرکے اپنے رب سے صلہ کی امید رکھنا ہی کامیاب ترین سودا ہے۔
لیکن دوسری طرف شکر گزاری اور احسان مندی بھی ایک خوبی ہے، اور اس خوبی کا بھی معاشرے میں بھر پور اظہار ہونا چاہئے۔
انسانی معاشرہ میں ہر شخص کسی نہ کسی کی کسی طور خدمت اور مدد کرتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی مدد کرتا ہے، اور آپ اس سے شکریہ کہتے ہیں، وہ جوابا کہتا ہے کہ شکریہ کی کیا بات، یہ تو میرا اخلاقی فرض تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ جو نیکی کی وہ ایک اخلاقی فرض ہو یا نہ ہو، آپ کا اس کی نیکی پر شکریہ کہنا ضرور ایک اخلاقی فرض بنتا ہے۔
شکرگزاری شخصیت کی بلندی کی علامت ہے، بعض لوگ پہلے سے دل میں طے کرلیتے ہیں کہ سامنے والے نے نیکی کرکے اپنے اخلاقی فرض کو ادا کیا، یا کسی پرانی نیکی کا بدلہ دیا، اور یوں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سوچ شخصیت کو ایک اعلی اخلاقی صفت سے محروم کردیتی ہے۔
شکر گزاری اپنے آپ میں ایک بڑی سماجی خدمت ہے، اس سے معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت حاصل ہوتی ہے، کسی نیکی کرنے والے کی جس قدر بھر پور طریقے سے شکر گزاری کی جائے گی، اس کا نیکی کا جذبہ اور حوصلہ اتنا ہی اور پروان چڑھے گا، اور جس قدر اعلانیہ شکر گزاری کی جائے گی اسی قدر دوسرے لوگوں میں بھی نیکی کا جذبہ نشوونما پائے گا۔
شکر گزاری سے رشتے اور تعلقات بھی بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ تحفہ دینے سے تعلقات کی خوشگواری پر اچھا اثر ہوتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اثر اس بھرپور شکریہ کا ہوتا ہے جو تحفے کو قبول کرنے والے کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے۔
شکرگزاری محض ایک زبانی عمل نہیں ہے جسے بے دلی اور بے دھیانی سے ادا کردیا جائے، شکر گزاری تو باہمی تعلقات کی عمارت اٹھانا ہے، نیکی کرنے والے کی تکریم اور اس کی نیکی کا خوب صورت اعتراف کرنا ہے، گھر سے لے کر سماج تک جس قدر ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور بھلائی پر شکر گزاری کا چلن ہوگا، اتنا ہی زیادہ اچھے تعلقات اور خوب صورت رشتوں کی تعمیر ہوگی۔
بعض لوگ دل سے شکر گزار ہونا کافی سمجھتے ہیں، اور زبان سے اس کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھتے، لیکن یہ رویہ درست نہیں ہے، اور اس سے شکریہ کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے، شکریہ کے جذبات دل کی گہرائیوں سے ہوں، اور ان کی بھرپور ادائیگی زبان سے ہو، تبھی شکریہ کا حق ادا ہوتا ہے، اور اس کی برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
بعض لوگ شکریہ تو ادا نہیں کرتے ہیں، لیکن دل میں طے کرلیتے ہیں، کہ بہترین صلہ دے کر احسان کا بوجھ ضرور اتاریں گا. نیکی کا صلہ نیکی سے دینا بہت اچھی بات ہے، لیکن یہ شکر گزاری کا بدل نہیں ہوسکتا ہے۔ شکر گزاری ایک تو اس لئے ضروری ہے کہ نیکی کی شروعات تو سامنے والے نے کی، آپ تو بہرحال اس کا بدلہ دیں گے، اور اس لئے بھی کہ کیا پتہ بدلہ دینے کا موقعہ ملے نا ملے، نہ زندگی کا بھروسہ اور نہ حالات کا، فوری شکرگزاری سے ایک اخلاقی فرض کی ادائیگی تو بروقت ہوجاتی ہے، اور اس طرح شکر گزاری کے بے شمار فائدے بھی معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔
بعض لوگ شکریہ اسی وقت ادا کرتے ہیں جب بالکل بے عیب نیکی ان کے ساتھ کی جائے، اگر ذرا سی بھی خامی نکل آئے، تو وہ شکریہ کی اخلاقی ذمہ داری بھول کر شکوہ وشکایت کی بے منزل راہوں پر نکل پڑتے ہیں۔ بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے، کہ آپ کو کوئی تحفہ پیش کرے، وہ آپ کو بالکل پسند نہ آئے، پھر بھی آپ اس کا دل کھول کر شکریہ ادا کریں، اور بڑی کم ظرفی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی آپ کو تحفہ دے کر آپ کے رویہ سے محسوس کرے کہ اس سے کوئی خطا سرزد ہوگئی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ میزبانی سے تعلقات میں مضبوطی اور خوش گواری آنا چاہئے، لیکن گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ ذرا سی کوتاہی مہمان رشتے دار کو ناراض کردیتی ہے اور وہ دل میں شکایتوں کا دفتر لئے رخصت ہوجاتا ہے۔ میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ جن لوگوں کے تعلقات برسوں سے نارمل چلے آرہے تھے، ایک وقت کی یا چند دنوں کی میزبانی کے بعد بہت زیادہ خراب ہوگئے۔ اس میں میزبان کا قصور بھی ہوسکتا ہے، لیکن مہمان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میزبان کی کوتاہیوں اور خامیوں سے درگزر کرتے ہوئے اس کی میزبانی کی لاج رکھے، اگر وہ مثالی اور معیاری میزبان نہیں بن سکا تو آپ تو ایک اچھے مہمان بن سکتے تھے۔ خراب میزبان کو سبق سکھانے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ خراب مہمان بن جائیں، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس وقت آپ اس کے اچھے مہمان بن جائیں، اور موقعہ ڈھونڈ کر اسے اچھا میزبان بن کر بھی دکھا دیں۔
مشہور کہاوت ہے، دسترخوان نہ بچھے تو ایک عیب، اور بچھے تو سو عیب۔ پر یاد رہے کہ یہ کہاوت صحتمند رویہ کی عکاسی نہیں کرتی، دسترخوان کا نہ بچھنا بہت بڑا عیب ہے، جو مجبوری کی حالت میں ہی گوارا کیا جاسکتا ہے، اور دسترخوان کا بچھ جانا بہت بڑی خوبی ہے، اس خوبی کے ہوتے ہوئے کشادہ ظرف لوگ سو عیب کیا ہزار عیبوں سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔
جب خود غرضی اور صرف اپنے اوپر خرچ کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہو، صارفیت کا سیلاب خدمت کے حوصلوں کو شدید دھمکیاں دے رہا ہو تو معاشرہ میں خدمت، نیکی اور بھلائی کے رجحان کو قوت پہونچانا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ شکر گزاری اور احسان مندی کی اہمیت اس سے اور اجاگر ہوجاتی ہے۔

حق دار کا حق اور قرض دار کا فرض

معاشرے میں یوں تو بہت سارے لوگ بہت ساری تکلیفوں سے دوچار رہتے ہیں، اور وہ سب ہمدردی کے قابل ہوتے ہیں، تاہم مجھے بہت ترس آتا ہے ان لوگوں پر جو محض اس وجہ سے شدید ذہنی اذیت سے دوچار رہتے ہیں، کہ انہوں نے کسی کی مدد کے جذبہ سے اسے قرض دے دیا ہوتا ہے، یا کسی کی مشکل آسان کرنے کے لئے ادھار مال فروخت کردیا ہوتا ہے، قرض دار تک رسائی کی زحمت، قرض واپس مانگنے کی تکلیف اور پھر بھی قرض واپس نہ ملنے کا کرب، غرض اذیتوں کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہتا ہے، جس سے وہ لوگ قدرے محفوظ رہتے ہیں جن کے دل میں ہمدردی کا جذبہ نہیں ہوتا۔
جاننا چاہئے کہ بلاسودی قرض کا نظام مسلم معاشرہ کی خوبی اور امتیاز ہے، یہ مسلم معاشرہ پر اللہ کی خاص رحمت کا مظہر ہے۔ کسی اور معاشرہ میں ضرورت مندوں کی مدد کا اتنا اچھا انتظام شاید نہیں ہے، اس انتظام کی حفاظت ضروری ہے، اور اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ اس سلسلے کی الہی تعلیمات کا بھرپور لحاظ کیا جائے۔
قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ادھار لین دین کا سلیقہ سکھاتی ہے، اگر ہم اس کی تعلیمات سے اپنی زندگی کو آراستہ کرلیں، تو شخصیت میں حسن پیدا ہوجائے، معاشرہ کو سکون ملے اور بلا سودی قرض کے اس الہی نظام کی رحمتیں سایہ فگن رہیں۔ قرآن مجید کی یہ آیت کہتی ہے اور تاکید کے ساتھ کہتی ہے کہ ادھار کی رقم چھوٹی ہو یا بڑی، اس کی واپسی کی مدت طے کرو اور مدت کے ساتھ اس کو تحریری شکل دو۔
اصولی بات ہے کہ قرض ادھار کا معاملہ کرتے وقت ہی قرض کی واپسی کے سلسلے میں یا تو مدت کا تعین ہو، یا قرض دار حق دار سے طے کرے کہ مطالبہ کے فورا بعد یا مطالبہ کے بعد ایک متعین عرصہ کے اندر وہ قرض لوٹادے گا۔ غرض قرض کی واپسی کے سلسلے میں وقت کا طے ہونا ضروری ہے اور پھر جو بات بھی طے ہوجائے اسے تحریر میں لانا بھی ضروری ہے۔
مدت کے ساتھ قرض کی رقم کو لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر رقم کے سلسلے میں کسی بھول چوک کے نتیجہ میں تنازعہ پیدا نہیں ہوتا، اور کوئی کسی کا مال انجانے میں حرام طریقے سے کھانے کا مرتکب نہیں ہوتا۔ کیونکہ دوسرے کا مال حرام طریقے سے کھانا تو پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرنا ہے، اور یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔
قرض کی واپسی کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد قرض دار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق دار کو طے شدہ تاریخ پر بنا مانگے رقم ادا کردے، اور اگر کسی واقعی ناگزیر سبب سے وہ ادا نہیں کرسکتا ہو تو اس تاریخ کے گزرنے سے پہلے اپنی کوتاہی کے لئے معذرت خواہ ہوکر اگلی تاریخ مانگ لے۔ غرض یہ کہ کوئی قرض کتنا ہی پرانا ہوجائے مگر کبھی بھی تاریخ کے بغیر نہیں رہے، اور ہر تاریخ قرض دار خود پیش قدمی کرکے مانگے، خواہ کتنی ہی بار نئی تاریخ مانگنا پڑے۔
عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ طے شدہ تاریخ گزر جانے کے بعد قرض دار معذرت پیش کرنے اور نئی تاریخ مانگنے کی اخلاقی ذمہ داری کو نظر انداز کردیتا ہے، اور اس کے بعد جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں، حق دار کے دل میں وسوسے سر اٹھانے لگتے ہیں اور وہ قرض دار کے سلسلے میں بدگمان ہونے لگتا ہے۔ اسے یہ لگتا ہے کہ قرض دار نے اس کے قرض کو یکسر فراموش کردیا ہے، اور اگر قرض دار فون اٹھانا بند کردے تب تو حق دار کا ذہنی کرب بہت بڑھ جاتا ہے، اور اس کو اپنا حق صاف خطرے میں نظر آتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین اسوہ دیکھئے کہ ایک شخص نے وقت متعین سے پہلے ہی آپ سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا، اور سب کے سامنے سخت کلامی کی، آپ کے ساتھیوں کو غصہ آیا، مگر آپ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہ حق دار ہے اسے یہ حق بھی حاصل ہے، اس کے بعد اس کو اس کے حق سے بڑھا کر واپس کیا۔ حالانکہ وہ شخص ادائیگی کی طے شدہ تاریخ سے پہلے ہی مطالبہ کرنے آگیا تھا۔
ادائیگی کی تاریخ گزرجانے کے بعد اگر حق دار کو قرض دار کا تعاقب کرنا پڑے تو یہ تو قرض دار کے لئے بڑی شرم کی بات ہے، اور شرافت ومروت کے یکسر خلاف ہے، قرض دار کی تو اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حق دار کو کسی بھی ذہنی اذیت سے محفوظ رکھنے کا انتظام کرے، جس طرح اس نے قرض دے کر اسے ایک بڑی تکلیف سے بچالیا تھا۔ اور کیا اچھائی کا بدلہ اچھائی نہیں ہے؟؟ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ۔

"کوئی بات نہیں"

ایک بار میں گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بیگم کے چہرے کا رنگ خوف سے اڑا ہوا ہے، پوچھنے پر ڈرتے ڈرتے بتایا کہ کپڑوں کے ساتھ میرا پاسپورٹ بھی واشنگ مشین میں دھل گیا، یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گری، مجھے چند روز میں ایک ضروری سفر کرنا تھا، میں اپنے سخت ردعمل کو ظاہر کرنے والا ہی تھا، مگر اللہ کی رحمت سے مجھے ایک بات یاد آئی، اور میری زبان سے نکلا "کوئی بات نہیں"۔ اور اس جملے کے ساتھ ہی گھر کی فضا نہایت خوشگوار ہوگئی۔ پاسپورٹ دھل چکا تھا، اور اب اس کو دوبارہ بنوانا ہی تھا، خواہ میں بیگم پر غصہ کی چنگاریاں برسا کر اور بچوں کے سامنے ایک بدنما تماشا پیش کرکے بنواتا یا بیگم کو دلاسا دے کر بنواتا، جو چشم بد دور ہر وقت میری راحت کے لئے بے چین رہتی ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ مجھے اس جملے سے بے حد پیار ہے، میں نے اس کی برکتوں کو بہت قریب سے اور ہزار بار دیکھا ہے۔ جب بھی کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے کوئی دل دکھانے والی بات سامنے آتی ہے، میں درد کشا اسپرے کی جگہ اس جملے کا دم کرتا ہوں، اور زخم مندمل ہونے لگتا ہے۔ اپنوں سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں کو اگر غبار خاطر بنایا جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے، اور تعلقات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن "کوئی بات نہیں" کے وائپر سے دل کے شیشے پر چھائی گرد کو لمحہ بھر میں صاف کیا جاسکتا ہے، اور دل جتنا صاف رہے اتنا ہی توانا اور صحت مند رہتا ہے۔
بچوں کی اخلاقی غلطیوں پر تو فوری توجہ بہت ضروری ہے، لیکن ان کی غیر اخلاقی غلطیوں پر "کوئی بات نہیں" کہ دینے سے وہ آپ کے دوست بن جاتے ہیں، اور باہمی اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ بچہ امتحان کی مارک شیٹ لے کر سر جھکائے آپ کے سامنے کھڑا آپ کی پھٹکار سننے کا منتظر ہو، اور آپ مسکراتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرکر فرمائیں "کوئی بات نہیں، اگلی بار اور محنت کرنا، چلو آج کہیں گھومنے چلتے ہیں" تو آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ بچے کے سر سے کتنا بھاری بوجھ اتر جاتا ہے، اور ایک نیا حوصلہ کس طرح اس کے اندر جنم لیتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو کچھ دعائیں بھی یاد کرائی ہیں، ساتھ ہی اس جملے کو بار بار سننے اور روانی کے ساتھ ادا کرنے کی مشق بھی کرائی ہے۔
میرا بار بار کا تلخ تجربہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ جملہ بروقت زبان پر نہیں آتا، اور اس ایک لمحے کی غفلت کا خمیازہ بہت عرصے تک بھگتنا پڑتا ہے، طبیعت بدمزا ہوجاتی ہے، اور ایک مدت تک کڑواہٹ باقی رہتی ہے۔ تعلقات میں بال آجاتا ہے، اور برسوں تک خرابی باقی رہتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ یہ جملہ یادداشت کا حصہ بننے کے بجائے شخصیت کا حصہ بن جائے۔
وقفے وقفے سے پیش آنے والے معاشی نقصانات ہوں، یا ہاتھ سے نکل جانے والے ترقی اور منفعت کے مواقع ہوں، یہ جملہ ہر حال میں اکسیر سا اثر دکھاتا ہے، ایک دانا کا قول ہے کہ نقصان ہوجانا اور نقصان کو دل کا بوجھ بنانا یہ مل کر دو نقصان بنتے ہیں، جو ایک خسارہ ہوچکا وہ تو ہوچکا، تاہم دوسرے خسارے سے آدمی خود کو بچا سکتا ہے، اس کے لئے صرف ایک گہری سانس لے کر اتنا کہنا کافی ہے کہ "کوئی بات نہیں"َ۔ یاد رہے کہ یہ دوا جس طرح کسی چھوٹے نقصان کے لئے مفید ہے، اسی طرح بڑے سے بڑے نقصان کے لئے بھی کار آمد ہے۔ ایک مومن جب "کوئی بات نہیں" کو للہیت کے رنگ میں ادا کرتا ہے، تو "انا اللہ وانا الیہ راجعون" کہتا ہے۔
بسا اوقات ایک ہی بات ایک جگہ صحیح تو دوسری جگہ غلط ہوتی ہے۔ "کوئی بات نہیں" کہنا بھی کبھی آدمی کی شخصیت کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے، جیسے کوئی شخص غلطی کا ارتکاب کرے تو چاہئے کہ اپنی غلطی کے اسباب تلاش کرکے ان سے نجات حاصل کرے، نہ کہ "کوئی بات نہیں" کہ کر غلطی کی پرورش کرے۔ خود کو تکلیف پہونچے تو آدمی "کوئی بات نہیں" کہے تو اچھا ہے، لیکن کوئی کسی کو تکلیف دے اور اپنی زیادتی کو "کوئی بات نہیں" کہ کر معمولی اور قابل نظر انداز ٹھہرالے، تو یہ ایک گری ہوئی حرکت ہوگی۔ اسی طرح جب کوئی اجتماعی ادارہ مفاد پرستوں کے استحصال اور نا اہلوں کی نا اہلی کا شکار ہو رہا ہو اور "کوئی بات نہیں" کہ کر اصلاح حال کی ذمہ داری سے چشم پوشی اختیار کرلی جائے، تو یہ ایک عیب قرار پائے گا۔ معاشرہ میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی ہو اور لوگ اس جملے سے اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کریں، تو یہ انسانیت کے مقام سے گرجانا ہوگا۔
غرض کہ یہ جملہ دل کی دیوار پر آویزاں کرنے کے لائق ہوتا ہے، اگر یہ دل کی کشادگی برقرار رکھے، تعلقات کی حفاظت کرے اور دنیاوی نقصان ہونے پر تسلی کا سامان بنے۔
اور یہی جملہ مکروہ اور قابل نفرت ہوجاتا ہے اگر یہ عزم بندگی، احساس ذمہ داری اور جذبہ خود احتسابی سے غافل ہونے کا سبب بن جائے۔