داخلی گروپ بندی --- دینی جماعتوں کے لئے مہلک کینسر

چار دیواری محترم ہوتی ہے مسجد کی ہو یا دینی جماعت کی، چار دیواری کی توسیع کرنا مستحب اور پسندیدہ ہے، مگر چار دیواری کے اندر چار دیواریاں کھڑی کرنا انتہائی قابل نفرت عمل ہے ، مسجد کے اندر مسجد بنانا اور دینی جماعت کے اندر گروپ اور لوبی بنانا دراصل ان کی حرمت کو پامال کرنا ہے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی گھر میں نماز پڑھے اور دینی جماعت میں شامل نہ ہو۔ دینی جماعت کے اندر گروپوں کا تشکیل پاجانا ایک مرض ہے جو کینسر سے زیادہ خطرناک اور کوڑھ سے زیادہ بدنما اور بدبودار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایک ہی ملک یا شہر میں ایک سے زیادہ دینی جماعتیں ہوں، کبھی کبھی ان کے درمیان اختلاف ہوجانا بھی ایک فطری عمل ہے۔ تاہم ایک دینی جماعت کے اندر اگر کئی گروپ بن جائیں تو یہ انتہائی قبیح اور تشویشناک صورت ہوتی ہے۔
دینی جماعت میں گروپ بندی صرف ایک مرض نہیں ہے، بلکہ بہت سارے امراض خبیثہ اس ایک بیماری سے جنم لیتے ہیں، ان میں سب سے معمولی درجہ کا مرض یہ ہوتا ہے کہ دینی جماعت کے افراد اور ذمہ داران اندرونی سیاست میں ماہر ،اسی کے شائق اور اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ بیرونی معرکہ آرائی کے وسیع میدان میں جب وہ اترتے ہیں تو دوسروں کے مقابلے میں ان کی حیثیت ایسے کھلاڑی کی ہوتی ہے، جو اپاہج بھی ہو اور بے ہمت بھی۔
اگر کسی فرد کو جماعت کے کسی موقف یا فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس کا حق بھی ہے اور اس پر فرض بھی ہے کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ اپنا اختلاف پیش کرے، تاہم اپنے موقف کی طاقت وہ دلائل میں تلاش کرے، موقف کو قوت پہونچانے کے لئےجماعت کے اندر گروپ تشکیل نہ دے۔اگر ایک موقف کے ماننے والے ایک سے زیادہ لوگ ہوں تو وہ بھی انفرادی طور پر اپنا موقف پیش کریں، موقف کے اشتراک کی بنیاد پر وہ کوئی گروپ تشکیل نہ دیں۔یاد رہے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنا بہت اچھی بات ہے، اختلاف کی بنیاد پر جماعت چھوڑدینے کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے، اور ایک دوسری جماعت بنالینے کا جواز بھی نکل سکتا ہے، تاہم اختلاف کی بنیاد پرجماعت کے اندر گروپ بنالینا بڑاگھناونا جرم ہے۔اور ایک دینی جماعت کو گروپ بندی سے بچانا جماعت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
کینسر کی طرح گروپ بندی کا مرض اس طرح جماعتوں کے اندر داخل ہوتا ہے اور پھیلتا ہے کہ محسوس بھی نہیں ہوتا، مثال کے طور پر جماعت کے کسی فیصلے کے اوپر اختلاف ہوتا ہے، طویل بحثیں ہوتی ہیں، ہر کسی کو اپنی رائے سے جذباتی تعلق ہوجاتا ہے، فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، ساتھ ہی ہر رائے کے حاملین میں ایک قلبی تعلق سا قائم ہوجاتا ہے، یہ تعلق بسا اوقات اس قدر گہرا ہوجاتا ہے کہ کسی دوسرے مسئلہ پر بھی رائے کی لگ بھگ اسی انداز سے تقسیم ہوجاتی ہے۔ اور پھر ہر مسئلہ پر اس گروپ بندی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔اختلاف رائے کی کثرت دینی جماعت کے لئے ذرا نقصان دہ نہیں ہوتی، لیکن اختلاف رائے جب گروپ بندی کی شکل اختیار کرلے تو جماعت بیمار ہوجاتی ہے۔
مسائل اور فیصلوں کے علاوہ بسا اوقات دینی جماعتوں میں بعض دوسری بنیادوں پر بھی گروپ بندی کے لئے ماحول سازگار ہوجاتا ہے، کہ کہیں مولوی اور مسٹر کی بنیاد پر گروپ بندی ہوجاتی ہے، کہیں پر ذات برادری جیسی عصبیتیں سر اٹھاتی ہیں، کہیں ملک کے مشرقی علاقوں اور مغربی علاقوں جیسی دیواریں جماعت کی چار دیواری کے اندر کھڑی ہوجاتی ہیں، اور کہیں تو نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بن جاتے ہیں، کچھ عیار اور کچھ سادہ دل فتنوں کی آبیاری میں مصروف رہتے ہیں، اور باقی یاتو تماشائی ہوتے ہیں یا بے خبر راہی۔
گروپ بندی کا سب سے خراب اظہار قیادت کے انتخاب کے موقعہ پر ہوتا ہے۔ایک دینی جماعت میں انتخاب کی بنیاد فرد کی صالحیت اس کی صلاحیت اور تحریک کے لئے اس کی مفیدیت ہونا چاہئے، لیکن جب گروپ بندی کی بیماری رگوں میں سرایت کرجاتی ہے، تو مطلوبہ اوصاف پس پشت چلے جاتے ہیں، اور ہر گروپ کے لوگ اپنے گروپ کے کسی فرد کو قیادت کے لئے پیش کرتے ہیں، اور ہر طرح کی خوبیوں کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس دوران جو لوبی بنانے میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنی مہارتوں کے جوہر دکھاتے ہیں، سودے بازیاں ہوتی ہیں "سب مل کر سب سے اچھے فرد کا انتخاب کریں "کے بجائے"میرے گروپ کا فرد منتخب ہوجائے " کی کوشش ہوتی ہے۔انتخاب کے بعد کچھ لوگوں کے چہروں پر فتحیابی کی بدنما خوشی ہوتی ہے، تو کچھ لوگوں کے چہروں پر شکست کا قبیح ماتم نظر آتا ہے۔ دوسری طرف فرشتے ان سب کے اوپر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں، کہ اللہ کے نام پر ایک تحریک قائم کرنے والے لوگ گروپ بندی کے نشے میں ایسے دھت ہوئے کہ اتنا ہوش بھی نہیں ہےکہ کیسی بدبودار نالی میں لوٹ پوٹ ہورہے ہیں ۔
بعض لوگ اپنے آپ پر رشک کرتے ہیں کہ وہ لوبی بنانے اور اپنی لوبی کو قیادت کی کرسی تک پہونچانے میں مہارت رکھتے ہیں، یہ لوگ یہ نہیں سوچتے ہیں کہ اس شیطانی عمل کے لئے انہیں کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہئے تھا، کچھ سیاسی فائدے حاصل ہوجاتے، بھلا ایک دینی جماعت میں یہ گندا ناچ دکھانے سے انہیں کیا ملے گا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر فرد حق پسند تھا، رایوں میں اختلاف ہوتا تھا، قبیلوں کا فرق بھی موجود تھا، مزاجوں کا تنوع بھی تھا، تاہم جماعت کی صرف ایک چار دیواری تھی ، اور اس کے اندر کوئی دیوار نہیں تھی، اگر منافقین کے ذریعہ کوئی دیوار اٹھائی جاتی یا کوئی مسجد ضرار بنائی جاتی تو اہل حق وصفا اسے فورا منہدم کردیتے۔ داخلی گروپ بندی کو مردہ لاش سے اٹھنے والی بدبو قرار دیا گیا تھا، اور ہر کوئی اس بدبو سے نفرت کرتا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد شیطان نے برسوں محنت کی ، اور بالآخر دینی جماعت کے اندر گروپ بنانے کی کوششوں میں وہ کامیاب ہوہی گیا۔
ہر زمانے کی دینی جماعت کے سلسلے میں شیطان کوشاں رہا ہے، بدقسمتی سے اسے جماعتوں کے اندر ہی کارندے بھی مل جاتے ہیں، کچھ کو بادشاہ بننے کا شوق ہوتا ہے، اور کچھ کو بادشاہ گر بننے کی چاہ ہوتی ہے، کچھ کو اپنی رائے سے اتنا لگاؤ ہوتا ہے کہ اس کے لئے وہ نصب العین کا بھی سودا کرلیتے ہیں، اور کچھ کے نزدیک ذاتی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اور اس طرح خلافت ملوکیت میں اور للہیت دنیادار ی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔دینی جماعت ایک بدبودار لاش بن جاتی ہے اور شیطان اس کی چھاتی پر کھڑا ہوکر فتح کا جشن مناتا ہے۔
یاد رہے کہ دینی جماعت کی وسعت ایک روشن اور محترم لکیر ہوتی ہے، اس کے اندر کھینچی گئی ہر لکیر حقیر اور سیاہ ہوتی ہے، اسے کھینچنے والا، اس سے فائدہ اٹھانے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا سیاہ کار مجرم ہوتا ہے، اور سیاہ کاروں کے مقدر میں سیاہ روئی ہے۔
اس لئے جاگتے رہو، دینی جماعتوں کے لوگوجاگتے رہو ، دینی اداروں کے لوگو جاگتے رہو۔
(ماہنامہ رفیق منزل دسمبر 2014)

جیل کی چہار دیواری میں تزکیہ نفس کا سفر

مصر کی جیل میں ایک سال مکمل ہونے پر اسلامی رہنما ڈاکٹر صلاح سلطان کا خط ہم سب کے نام
ترجمہ: محی الدین غازی
"اور ہم اللہ پر بھروسہ کیوں نہ کریں، اس نے تو ہمیں ہمارے راستے دکھائے، تم ہمیں جو بھی تکلیف دو ، ہم تو صبرسے جمے رہیں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے"۔ سورہ ابراہیم 12)
زندگی کے بہت سارے ماہ وسال مہربان رب کے فضل وکرم کے سائے میں گزارے، اور آج لیمان اور عقرب کی جیلوں میں ایک سال مکمل ہوا۔
یہ ایک سال جو زنداں کی دیواروں اور سلاخوں کے درمیان گزرا، بہت ساری محرومیوں کا احساس دلاتا رہا۔
مسجدوں سے محرومی کہ جہاں نماز پڑھتا، خطبے اور درس دیتا اور اعتکاف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا۔
سفر کی آزادی سے محرومی کہ دیس دیس جاکر دعوت کا فرض انجام دینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔
بیوی اور اولاد سے محرومی جو میرے دل کے ٹکڑے اور جگر پارے ہیں۔
رشتہ داروں اور قرابت داروں سے محرومی کہ جن سے قوت اور مدد ملتی۔
ذہین، پاک باز اور باصفا شاگردوں سے محرومی کہ جن سے مل کر لگتا کہ بڑی دولت ہاتھ آگئی ۔
اہل علم سے محرومی کہ جن کے سامنے بیٹھ کرلگتا کہ گویا پھولوں اور پھلوں سے لدے باغوں میں پہونچ گئے۔
صدق وصفا کے پیکر دوستوں سے محرومی کہ جن کو چاہا تو اللہ کی محبت میں چاہا، اور جن سے ملاقات پر لگتا کہ دل کی ہر پریشانی دور ہوگئی۔
آسمان کی پہنائیوں میں پرواز کرنے والی، سر سبز وشاداب درختوں کے جمال میں کھوجانے والی، دریا اور سمندر کے صاف وشفاف پانی پر چلنے کا لطف لینے والی نگاہ سے محرومی کہ جیل کی کوٹھری میں یہ سب کہاں میسر۔
کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر نے اور کسی بیمار کی مزاج پرسی کے موقعوں سے محرومی۔
لیکن جب میں جیلروں کی دست رس میں پہونچا، جن کے دل رحم اور ہمدردی سے خالی تھے، تو سب سے پہلے میں نے اپنے رب کے حضور قسم کھائی کہ میں اپنے سارے گناہوں اور ساری غلطیوں سے سچی توبہ کروں گا، اور اس طرح نفس کو پہلے پاک کروں گا پھر اسے خوبیوں سے آراستہ کرنے کی مہم چھیڑوں گا۔ جب مجھے لیمان کی قید تنہائی میں رکھا گیا تو میں نے اس دور کو یہ عنوان دیا کہ "لیمان میں رحمان کا عرفان حاصل ہوا" اور جب عقرب کے جیل میں منتقل کیا گیا ، تو میں نے اسے یہ عنوان دیا کہ " عقرب میں ہم اللہ سے اقرب ہوگئے" اللہ سے قریب تر ہونے کے لئے شاہ دروازہ تو قرآن مجید ہے، پس میں نے اپنے جیل کے ساتھیوں سے اجازت لی کہ میں ان سے گفتگو میں مصروف ہونے کے بجائے پہلے نماز کی حالت میں قرآن مجید ختم کروں گا، تاکہ شیطان یہاں سے راہ فرار اختیار کرلے، اور اس تنگ کوٹھری میں وسعت اور میرے سینے میں کشادگی پیدا ہوجائے۔ پھر میں نے طے کیا کہ عام رفتار کے بجائے، ففروا الی اللہ والی برق رفتاری سے سلوک کی منزلیں طے کرکے مہربان رب کے قریب پہونچوں گا۔ پس میں دوڑ پڑا، پوری قوت سے دوڑنے لگا، اللہ کی خوشنودی اور جنت کی کامیابی کے قریب، اور میں پوری قوت سے بھاگنے لگا اللہ کی ناراضگی اور جہنم کی آگ سے دور۔ میں نے اپنے رات اور دن عبادت وانابت، اور تعلیم وتحریر میں مصروف کردئے۔ بس پھر کیا تھا، جسے لوگ مصیبت کہتے ہیں وہ نعمت ثابت ہوئی، جسے لوگ تنگی سمجھتے ہیں وہ فراخی لگنے لگی، اور جو محرومی نظر آتی تھی وہ برومندی بن گئی۔ قرآن مجید کی امید افزا آیتوں کے سائے میں میرے شب وروز گزرنے لگے۔ جیسے "میرا دوست تو اللہ ہے، جس نے کتاب نازل کی، اور وہ صالحین کودوست بناتا ہے" سورہ اعراف 196، اور "وہ ہمارا کارساز دوست ہے، اور مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا ہے" سورہ توبہ 51، اور "پھر اللہ نے ان پر سکینت نازل کی اور جلد حاصل ہونے والی فتح سے نوازا" سورہ فتح 18، اور " اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کردے گا" سورہ طلاق 7۔
میرے قلب ووجدان میں اعلی وارفع معانی گھر کرنے لگے، جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے، کہ ہر حال میں وہ خیر سے مالامال رہتا ہے، یہ خوبی کسی اور کو حاصل نہیں ہے، جب اسے خوشحالی حاصل ہوتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لئے باعث خیر ہوتا ہے، اور اگر اسے تنگی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے خیر کا سامان ہوتا ہے۔ حکیم ابن عطاء کا یہ جملہ کہ "جو اللہ کے انعام واکرام کے باوجود اللہ سے غفلت برتتا ہے اسے آزمائش کی زنجیروں میں باندھ کر اس کے پاس لایا جاتا ہے" اور یہ کہ "جب بندے کو کوئی نعمت نہیں دی جاتی ہے، اور وہ اسے نہیں دئے جانے کی حکمت کو سمجھ لیتا ہے تو نہیں دیا جا نا اس کی نظر میں عین نعمت قرار پاتا ہے"
جیل میں میرے رب نے مجھے بتایا کہ صبر جمیل اورقناعت ورضا کی منزلیں کیسے طے کرتے ہیں، اور میں نے بھی کمر کس لی، اور اللہ کے فضل سے تزکیہ کی راہ میں کچھ اس طرح پیش قدمی ہوئی؛
قید کے اس سال میں اللہ کے فضل سے نماز کی حالت میں سو سے زیادہ مرتبہ قرآن مجید ختم کیا، وہ بھی اس طرح کہ تلاوت کے دوران دماغ تدبر میں مصروف، دل اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ اور شخصیت تعمیر کے لئے تیار۔ اس ایک سال میں مجھ پر قرآن مجید کے وہ معانی آشکارا ہوئے جو پچھلے چھ سال سے زیادہ تھے۔
اسی سال صحیح بخاری کی روایت کی اجازت مجھے حاصل ہوئی، جو میری قدیم تمنا تھی اور اللہ نے جیل میں پوری کی۔
اس سال جیل کے اندر میں نے تفسیر ، فقہ، اصول فقہ، لغت، ادب، شعری دیوان، تاریخ اور فلسفہ میں اتنا پڑھا کہ کبھی پانچ برس میں نہیں پڑھا تھا۔
اس سال جیل کے اندر میں نے قرآن مجید کی حکمت عملی، تفسیر کے طریقہ، ایمان، اخلاق اور فقہ کے قواعد، اور فتوی و تربیت کے موضوعات پر کافی کچھ لکھ لیا۔ ساتھ ہی دنیا کے مختلف ملکوں میں پیش آنے والے پچاس دعوتی واقعات کو تحریر کیا۔ اس مشغلہ نے مجھے جیل کے اندر اپنے رب کے ساتھ خلوت کی خوبصورت ترین ساعتیں عطا کیں۔
اس سال جیل میں میرا ایسے مردوں اور نوجوانوں سے تعارف ہوا، جو اخلاق وکردار ، سوزو انابت اور علم وبصیرت کے پہاڑ ثابت ہوئے، رب ارض وسما کے ساتھ خلوت ایک جنت تھی تو اس کے بعد ان سے ملنا اور ان کی رفاقت میں بلندیوں کو چھونا ایک دوسری جنت تھی۔
میں اپنے بیوی بچوں اور بھائیوں سے پہلے ہی بہت محبت کرتا تھا، جو اس ایک سال میں کئی گنا بڑھ گئی، جب میں نے دیکھا کہ انہیں میری اور بیٹے محمد کی شدید ضرورت تھی، بیماریوں نے ان کا امتحان بھی لیا، پر وہ صبرواستقامت کی تصویر بنے رہے، میں نے "صلاح باسماء" کے نام سے اپنی شادی اور محبت کی سو صفحات سے زیادہ طویل داستان لکھی۔میں نے اپنے بھائیوں اور خاندان والوں میں اس آزمائش کے دوران وہ بلند کردار دیکھا کہ جو قابل تعریف وستائش ہے، اور جس پر اللہ کا بے پناہ شکر ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ تعالی نے اس آزمائش کے دوران صلہ بھی بہت دیا، میری بیوی کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی، میری بیٹی ھناء کو اللہ نے امین کے بعد دوسرا بیٹا الیاس دیا، میرے تیسرے بیٹے انجینئر خالد کی شادی ہوگئی، میرے چوتھے بیٹے عمر کو پولیٹیکل سائنس میں امریکہ کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا، میری سب سے چھوٹی بیٹی بشری نے پوزیشن حاصل کی، میرے پانچ بھتیجوں کی منگنی اور پھر شادی ہوگئی، میرے بھتیجے حمزہ عزوز کو جیل سے رہائی ملی، اللہ نے اس کے بھائی محمد کو غنڈوں کے ہاتھوں موت سے بچایا، اور میری بھانجی ھناء نے انٹرمیڈیٹ میں پورے ملک کی سطح پر پوزیشن حاصل کی، اور میرے خاندان میں حافظوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
اس سال ایسے ایسے لوگوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی اور خطوط لکھے جوظلم کے اندھیرے میں روشنی کا مینار اور جن کے دل شجاعت اور وفا کا نشان ہیں۔
جیل میں اللہ تعالی نے مجھے وہ شخصیت عطا کی جو مظلوم ساتھیوں کے لئے اس طرح نرم ہے کہ گویا میں ان کا مشفق باپ اور جگری دوست ہوں، اور ظالموں کے لئے اتنی سخت ہے جیسے تیز دھاری تلوار۔ میں نے اللہ سے بار بار دعا کی کہ وہ ان سارے ظالموں کو ان کے ظلم کا مزا چکھائے۔
قید ہوتے ہی میں نے اللہ سے نذر مانی کہ جب تک رہا نہیں ہوجاتا، ہر دن روزہ رکھوں گا، اس امید پر کہ روزہ دار کی جو افطار اور سحری کے وقت دعاؤں کی قبولیت کی ساعت ہوتی ہے، وہ ساعت مجھے ہر روز ملے، اور میں ان ساعتوں میں خاص طور سے ظالموں کے لئے برے انجام کی، اور صالحین کے لئے استقامت اور سرخ روئی کی دعا کروں۔
جیل میں ہر شب سونے سے پہلے اللہ سے دعا مانگتا، کہ مجھے جیل میں بند کرنے والے ظالم نے جن لذتوں کو مجھ سے چھینا ہے، وہ مجھے خواب میں حاصل ہوجائیں، اللہ کی قسم جیل کی دیواروں کے باہر مجھے جو کچھ حاصل تھا، وہ مجھے نیند کی حالت میں حاصل ہوتا رہا، مسجدوں میں نمازیں، مشرق سے لے کر مغرب تک دینی مراکز کے سفر، اجتماعات اور کانفرنسیں، تربیت وتزکیہ کے کیمپ، علم شریعت کے ورکشاپ، یوروپ امریکا جاپان پاکستان ہندوستان ازبکستان اور دیار عرب غرض پوری دنیا کے دعوتی دورے، یہاں تک کہ مجھے جو پانی اور سبزہ سے عشق ہے ، اللہ نے اس سے بھی محروم نہیں رکھا۔
اس سال میں نے اپنی جسمانی صحت کا بھی خوب خیال کیا، اور اللہ کے فضل سے ورزش کا ایسا ورلڈ کلاس پروگرام اپنے اوپر نافذ کیا جس کو نوجوان بھی انجام نہیں دے سکتے، جیل میں ڈالنے والوں نے مجھے ایک سخت آزمائش کی آگ میں جلانا چاہا، لیکن مجھے آگ کی تپش کے بجائے صبر جمیل کے نور کا کیف حاصل ہوا۔ انہوں نےمیرے بڑے بیٹے اور گہرے دوست محمد کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا اور کئی مہینوں تک مجھ سے ملنے نہیں دیا، ظالموں کے ظلم کے خلاف طاقت ور احتجاج کرتے ہوئے میرے بیٹے نے بھوک ہڑتال کی اور آج اسے دو سو چالیس دن ہوگئے، اس کا تنومند جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگیا ہے، اس جوان نے اتنی لمبی بھوک ہڑتال کرکے اپنی قوت ارادی سے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے، میں کئی بار اس کے منھ اور ناک کے پاس اپنا کان رکھ کر سننے کی کوشش کرتا ہوں آیا زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔لیکن ابھی بھی اس کے پاس سے قرآن کی تلاوت اور دعا ئیں سنائی دیتی ہے، میں اس کے پاس ہوتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم زمین پر نہیں آسمان کی کسی منزل پر ہیں۔اور جب اس منزل سے اتر کر نیچے آتا ہوں تو منھ میں جانے والا ہر لقمہ تلخ لگتا ہے، جس کے جگر کا ٹکڑا مہینوں سے بھوکا ہو، وہ تو کھانا نہیں کھاتا ہے بلکہ ہر کھانے کے وقت غم کی شدت سے ایک موت مرتا ہے، اس سب کے باوجود ہمارے ارادے جوان اور جوان ہوتے جارہے ہیں، حق کی خاطر جان نچھاور کرنے کا جذبہ روز بروز طاقت ور ہو رہا ہے، آج محمد اس لئے جیل میں ڈالا گیا کہ وہ ایک قائد صلاح الدین سلطان کا بیٹا ہے، اللہ نے چاہا تو ہم باہر آئیں گے اور اس وقت لوگ مجھے ایک بطل عظیم محمد سلطان کے باپ کی حیثیت سے جانیں گے۔
میرے بھائیو اور میری بہنو، میرے بیٹو اور میری بیٹیو، میں تمہیں خوش خبری سناتا ہوں، کہ مستقبل روشن ہے، آزادی کے دن قریب ہیں، اللہ کی قسم اس سال میں نے اپنے سجدوں اور اپنی خلوتوں میں تمہارے لئے اس قدر دعائیں کی ہیں کہ کبھی دس سال میں نہیں کی ہوں گی۔ اس بات پر خوش ہوجاؤ اور ہمارے لئے تم بھی خوب دعائیں مانگو، لیکن دعاؤں کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ میرے پیغام کو پرواز کے پر دینا بھی میرا تم پر حق ہے، فلسطین اور مسجد اقصی کی آزادی کا مشن بھی تم کو سنبھالنا ہے، اگر تم میرے ناتواں جسم کو جیل سے آزاد نہیں کراسکتے کہ یہ بس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، تو یہ ضرور یاد رکھو کہ میری طاقت میرے پیغام میں ہے، یہی میری نظر بندی کا سبب ہے، میری کتابیں میرے مضامین میری تقریریں میرے علمی اور تربیتی منصوبے اور خدا دوست قائدین کی تیاری کا میرا انوکھا پروگرام ، یہ سب انٹرنیٹ پر اور میرے صفحات پر موجود ہے، میری التجا ہے کہ میرے پیغام کو آزادی اور پرواز دو، اگر تم میرے ہر پیغام کے حامل بن کر اور اس کا ترجمہ کرکے دنیا بھر میں پہونچاتے ہو قریہ قریہ شہر شہر، تو سمجھو کہ تم میری دعاؤں کے دائرے میں داخل ہوجاؤگے، وہ دعائیں جو ہرروز کئی کئی بار میرے دل کی گہرائی سے نکلتی ہیں اپنے ہونہار شاگردوں کے لئے، ان کے لئے جو میرے علم وبصیرت کو جو اللہ کا عطیہ ہے دنیا میں عام کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جو اپنے قول وعمل سے مسجد اقصی کی آزادی اور فلسطین اور غزہ کی مدد کے لئے کمر بستہ ہیں۔
یاد رکھو جن ظالموں نے مجھے قید کرکے تم سے دور کردیا ہے، ان کو اور ان کے ظلم کو چیلنج کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ میرا پیغام خوب عام کرو۔ گو کہ میں تم سے رو برو نہیں ہوسکتا مگر اللہ اپنے فضل خاص سے میرے خوابوں میں تم سے میری ملاقات خوب کراتا ہے، اور وہ تمہاری رفاقت سے مجھے محروم نہیں کرے گا۔
"اور وہ کہتے ہیں وہ (فتح) کب ، کہو کہ کیا پتہ کہ وہ قریب ہو" سورہ اسراء 51
ڈاکٹر صلاح سلطان
ایک قیدی ، اللہ کی راہ میں ،فخرو ثبات اور پامردی کے ساتھ

مثالی قیادت --- اوصاف اور اہداف کا عطر مجموعہ

تجارتی اداروں اور تنظیموں کی بے راہ روی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں قیادتوں کا انتخاب صرف اہداف کی بنیاد پر ہوتا ہے، ایک شخص ذاتی حیثیت میں کس قدر برائیوں میں لت پت ہے اسے نظر انداز کرکے دیکھا یہ جاتا ہے کہ وہ شخص کمپنی کے اہداف کے حصول کے لئے کیا وژن اور کیسی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ اگر انہیں کوئی ایسا قابل اعتماد اور باصلاحیت فرد مل جاتا ہے جو ان سے وعدہ کرے کہ وہ ایک متعینہ میعاد میں کمپنی کو اس کی موجودہ پوزیشن سے آگے بڑھا کر بہتر پوزیشن تک پہونچائے گا ، تو وہ اس کو گلے لگاتے ہیں ، اور کمپنی کا انتظام وانصرام اس کے حوالے کردیتے ہیں، اور توقعات پر پورا نہیں اترپانے کی صورت میں اس سے جلدی ہی چھٹکارا بھی پالیتے ہیں۔
تاہم دینی اداروں اور تنظیموں کی پس ماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں قیادتوں کا انتخاب صرف اوصاف کی بنیاد پر ہوتا ہے، اگر ادارہ اندرونی سیاست اور گروپ بندی کا شکار ہو، تب تو اوصاف بھی نہیں دیکھے جاتے ، اور یہی بات کافی ہوتی ہے کہ کس فرد کا منتخب ہوجاناکس گروپ کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اگر ادارہ اندرونی سیاست سے پاک ہو تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ تقوی،علم اور معاملہ فہمی کے لحاظ سےکون سب سے بہتر ہے۔ قیادت کے لئے منتخب ہونے والے فرد سے نہ تو پوچھا جاتا ہے اور نہ ایسا کوئی وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ ادارے کو ایک میعاد کے اندر ترقی کی کس منزل سے ہم کنار کرےگا۔
دینی اداروں میں قائد کے اوصاف پر توجہ مرکوز ہوتی ہے ، اہداف کے پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، قائد کا انتخاب بھی اوصاف کے پہلو سے ہوتا ہے، اہداف کے پہلو سے نہیں ہوتا، اور اس کا جائزہ اور احتساب بھی اسی پہلو سے ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات قائد اپنے آپ میں ایک قدآور ، قابل احترام اور عظیم الشان شخصیت ہوتا ہے، مگر اس کی کارکردگی ذرا اطمینان بخش نہیں ہوتی ہے، اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ ایسے بہت سارے ادارے دیکھنے کو ملتے ہیں ، جہاں قائد کے علم وتقوی اور قلم وخطابت کی سارا عالم گواہی دیتا ہے، اور ادارہ اس کے زیر قیادت وانتظام برسہا برس سے جمود اور پستی میں رہ کر ایسے انڈے بچے دے رہا ہوتا ہے جن کی انسانیت کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ الٹا انسانیت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
دینی اداروں میں اہداف کو یکسر نظر انداز کرکے صرف اوصاف پر توجہ کیوں دی جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان اداروں میں قائد کی ذمہ داری صرف اتنی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ادارے کو چلائے، اور وہ بھی ایسے ادارے کو چلائے جو خود ہی چل رہا ہوتا ہے، چنانچہ وہ پورے اطمینان اور سکون سے ادارے کو ویسے ہی چلاتا ہے جس طرح روز صبح سے شام تک چرواہا ایک پیڑ کے سائے میں بیٹھ کر بھیڑ بکریاں چراتا ہے، یا سڑک کے نکڑ پر پان کی دکان والا روز صبح میں دکان کھولتا اور شام کو اسے بند کردیتا ہے۔ کبھی کبھی ادارہ کسی بحران کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے اندر بھی بے چینی پیدا ہوجاتی ہے، بحران کے دور ہوتے ہی اس کے شب وروز بھی سکون اور چین سے گزرنے لگتے ہیں۔ چونکہ ادارے کو محض چلانا مقصود ہوتا ہے اس لئے اہداف کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی ہے، اور صرف اوصاف کی اہمیت رہ جاتی ہے۔
اگر قائد کی ذمہ داری ادارے کو چلانے کے بجائے ادارے کو ترقی دینا قرار پائے، تو اوصاف کے ساتھ ساتھ اہداف کی اہمیت بھی دوچند ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں ادارہ قیادت کے لئے ایسے فرد کو تلاش کرتا ہے جو ترقی کا تصور بھی رکھتا ہو اور اس کا وعدہ کرنے کی جرأت بھی رکھتا ہو۔
اعلی اوصاف کے ساتھ ساتھ واضح اور بلند اہداف کی بنیاد پر جب قائد کا انتخاب ہوتا ہے، تو قائد کو اوصاف کی حفاظت کی فکر بھی ہوتی ہے اور اہداف کے حصول کی دھن بھی ہوتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر اس کا احتساب بھی ہوتا ہے۔ جو قائد اہداف کو پورا نہیں کرپاتا وہ ادارےسے معافی مانگ کر خود مستعفی ہوجاتا ہے، یا پھر ادارہ بخوبی اسے سبک دوش کردیتا ہے۔
اہداف کا تعین کوئی مشکل امر نہیں ہے، قائد خود بتا سکتا ہے کہ وہ ایک میعاد میں کیا کیا تبدیلیاں لانے کا تصور رکھتاہے، اور ادارہ خود بھی یہ طے کرسکتا ہے کہ اسے ایسا قائد مطلوب ہے جو ایک میعاد میں چناں چناں تبدیلیوں سے ادارے کو ہمکنار کرنے کا وعدہ کرے۔ادارہ تو بحسن وخوبی چلتا رہتا ہے،ساتھ ہی ہر میعاد میں قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے والا پرعزم و باحوصلہ کمان دار اپنے اہداف کی دھن میں ادارے کو نئی نئی فتوحات سے ہمکنار کرتا ہے۔

مجھے لوگوں نے ذمہ دار بنادیا ---- ایک مغالطہ آمیز جواب

اسلامی اجتماعیت میں کوئی سپاہی ہو یا سپہ سالار، اللہ کے یہاں عزت اور رتبہ تو کارکردگی اور اخلاص کی بنیاد پر ملتا ہے۔ البتہ ذمہ داری کا بوجھ سالار پر زیادہ ہوتا ہے، اگر اس کا احساس سالار کو ہوجائے تو وہ بننے سے پہلے ہزار بار سوچے، اور بنادئے جانے کے بعد خدا کے حضور مدد مانگنے کے لئے ہزار بار روئے اور گڑگڑائے۔
کچھ دینی اداروں اور دینی جماعتوں کے بعض اعلی ذمہ داران سے جب کبھی کوئی جرأت کرکے پوچھ بیٹھتا ہے کہ حضرت آپ اتنے برسوں سے ذمہ دار ہیں، لیکن ایسا کیوں ہے کہ ابھی تک آپ نے کسی امتیازی کارکردگی کا ثبوت نہیں دیا، آپ کی نگرانی میں ادارے نے کچھ خاص ترقی نہیں کی، اور آپ نے لوگوں کی توقعات کو پورا نہیں کیا۔ تو وہ بڑے انکسار کے ساتھ جواب دیتے ہیں، میں کیا کروں میں نے تو اپنی مصروفیت اور نا اہلی کا بہت حوالہ دیا لیکن لوگوں کے اصرار اور دباؤ پر مجھے ذمہ داری قبول کرنا پڑی۔
بہت سارے ایسے لوگ بیک وقت بہت سارے منصبوں پر براجمان ہوتے ہیں، اور وہ کسی بھی منصب کا حق ادا کرنے کی پوزیشن اور دھن میں نظر نہیں آتے، ان کا جواب بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگوں نے اتنا سارا بوجھ ڈال دیا۔
یہ جواب ایک مغالطہ ہے، جو دنیا میں تو ممکن ہے لوگوں کی ملامت سے بچالے، کیوں کہ دنیا کی اکثریت اجتماعی معاملات کے سلسلے میں سادہ لوح ہوا کرتی ہے، لیکن آخرت میں شدید قسم کی پکڑ سے نہیں بچاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے ہر آدمی تنہا جائے گا۔
اس شدید پکڑ سے بچنے کے لئے ہمارے اسلاف اپنی پیٹھ پر کوڑوں کی بارش ہونا گوارا کرلیتے تھے، جیل کی صعوبتوں پر صبر کرلیتے تھے مگر ایسی ذمہ داری قبول نہیں کرتے تھے جس کے بارے میں انہیں یہ اندیشہ ہو کہ کسی بھی وجہ سے وہ اس کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔
امت کے کسی بھی اجتماعی منصب کو قبول کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ اس منصب کا حق کیا ہے، اور اگر یہ احساس ہوجائے کہ صحت، عمر، مصروفیت یا اہلیت اس حق کی ادائیگی میں حائل ہوجائے گی تو اس منصب کو قبول کرنے سے اس طرح انکار کردینا چاہئے گویا کہ وہ منصب نہیں زہر کا پیالہ ہو۔

غلامی کا مسئلہ --- اسلامی موقف کی وضاحت ضروری ہے

حالیہ دنوں میں ایک خبر یہ عام ہوئی کہ شام اور عراق کے بعض علاقوں میں مسلح مسلم گروپوں نے غیر مسلم مردوں اور عورتوں کو اپنے قبضہ میں کرکے غلام بنالیا۔ یہ خبر کتنی صحیح ہے اس سے قطع نظر، یہ سوال عالمی سطح پر سب کے سامنے آیا کہ کیا اسلامی تعلیمات کی رو سے آزاد انسانوں کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔
بہت امکان ہے کہ آئندہ بھی یہ سوال بار بار اٹھے گا، اور ہر بار مسلمانوں کو اس تشویش میں مبتلا کرے گا کہ اس کا جواب کیا ہے۔
درحقیقت اسلامی تاریخ کے بہت سارے بے انتہا روشن پہلو ایسے ہیں جن پر مسلمان ساری انسانیت کے سامنے فخر کرسکتے تھے، لیکن غفلت وتساہل نے حقائق پر پردہ ڈٓال دیا۔ غلامی کا مسئلہ بھی ان میں سے ایک ہے۔
تاریخ میں جو بات ببانگ دہل کہنے کی تھی مگر دبے لفظوں میں بھی شاید نہیں ملتی ہے وہ یہ کہ مکہ کے ابتدائی دور میں جب نہ روزہ فرض ہوا تھا، اور نہ زکاۃ اور حج فرض ہوئے تھے، نہ اس وقت تک سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور نہ شراب کی حرمت کا، اس ابتدائی دور میں اسلام نے غلامی اور معاشی استحصال کے خلاف مہم زبردست طریقے سے چھیڑدی تھی۔
سورہ بلد (نمبر90) جو مکہ کے ابتدائی دور کی سورت ہے، اس میں کامیابی کا راستہ غلام کو آزاد کرنا اور مسکینوں اور یتیموں کو کھانا کھلانا بتایا گیا۔ ان آیتوں میں یہ بات واضح طور سے موجود تھی کہ غلام انسانوں کوآزاد کرنا نیکی کا کام اور آزاد انسانوں کو غلام بنانا حرام ہے۔ اسی طرح غریبوں کو خوشحال بنانا نیکی کا کام اور انسانوں کا معاشی استحصال کرنا حرام ہے۔ یہ بات عقل وخرد کے خلاف ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا تو آخرت کی کامیابی کا راستہ قرار پائے ساتھ ہی آزاد انسانوں کو غلام بنانا جائز بھی ہو۔
مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یہ اصول ذکر کیا ہے، مگر مجھے اس پر پورا اطمینان ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں جہاں جہاں غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اس ترغیب کے اندر ہی یہ حکم موجود ہے کہ کسی آزاد کو غلام بنانا ممنوع اور حرام ہے، اسی طرح جہاں جہاں فقراء اور مساکین کی مدد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں اس ترغیب کے اندر ہی یہ حکم موجود ہے کہ انسانوں کا معاشی استحصال حرام ہے۔
چنانچہ تاریخ اس کی گواہی دیتی ہے کہ مکہ میں جہاں مسلمان شدید مصائب اور آزمائشوں سے دوچار تھے، غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ آگے چل کر یہ مشغلہ مسابقت کی صورت اختیار کرگیا، اور لاتعداد لوگوں کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی۔
یہ بات اول روز سے مسلمانوں کے سامنے واضح تھی کہ انسانوں کا مال غصب کرنا اور ان کی آزادی چھین لینا اسلام میں حرام ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے ہیں کہ جو ایک آزاد کو غلام بناکر بیچ دے گا اور اس کی قیمت خود کھالے گا، اور جو مزدور سے پورا کام لے کر اس کی مزدوری اسے نہیں دے گا میں قیامت کے دن ایسوں کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔ یہ اعلان دراصل اس جنگ کی یاددہانی تھا جو اسلام نے غلامی اور معاشی استحصال کے خلاف چھیڑی ہوئی تھی۔
اسی لئے تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی آزاد کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔
صرف بات رہ جاتی ہے جنگی قیدیوں کی، اس سلسلے میں بھی ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ مسلمان ببانگ دہل اعلان کرتے کہ جنگی قیدیوں میں جو آزاد ہیں وہ آزاد رہیں گے، وہ جنگی قیدی کی حیثیت سے قید میں تو رہ سکتے ہیں، لیکن ان کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن ہمارے علماء اور فقہاء سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی اور وہ کہیں اور نکل گئے۔
قرآن مجید میں جنگی قیدیوں کے سلسلے میں اس قدر واضح ہدایت ملتی ہے، کہ اس میں کسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں ہے، سورہ محمد کی آیت نمبر 4 کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہو تو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو یہاں تک کہ لڑائی اپنابوجھ رکھ دے، بات یہ ہے۔ اوراللہ چاہتا تو آپ ہی اُن سے بدلہ لیتا مگر اس لئے تم میں ایک کو دوسرے سے جانچے اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ ہرگز ان کے عمل ضائع نہ فرمائے گا" (ترجمہ احمد رضا خان)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تاریخ کی عظیم ترین جنگ بدر میں اس آیت کے حکم پرعمل کرکے اس طرح دکھایا کہ سارے کے سارے قیدیوں کو آزاد کردیا۔
آج مسلمانوں کی فقہ جو کچھ بھی کہتی ہو، عام مسلمانوں کا ذہن یہی کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن ملک کے مردوں اور عورتوں کو غلام بناکر آپس میں تقسیم کرلیں۔ مسلمان نہ تو یہ گوارا کرسکتے ہیں کہ ان کی لڑکیوں کو کوئی فوج غلام بنالے، اور نہ ان کو یہ جائز سمجھنا چاہئے کہ کوئی مسلم فوج کسی دوسری قوم کی لڑکیوں کو غلام بنالے، محض اس بنیاد پر کہ جنگ کے نتیجہ میں وہ قیدی بن کر ہاتھ آئی ہیں۔
غرض کوئی جنگی قیدی غلام نہیں بنایا جائے، یہی قرآن مجید کی واضح تعلیم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت سنت ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کا امتیاز اور اسلامی تاریخ کا نہایت روشن پہلو ہے۔
بعض لوگوں کا یہ کہنا تو بہت ہی غلط ہے کہ اگر کافر فوجیں مسلمان جنگی قیدیوں کو غلام بناتی ہیں تو مسلمان فوجیں کافر جنگی قیدیوں کو غلام کیوں نہیں بناسکتی ہیں۔ یہ کہنا غلط اس لئے ہے کہ امت مسلمہ کا فریضہ منصبی دنیا سے غلامی جیسی ساری برائیوں کو ختم کرنا ہے، یہ کہنا اسے زیب ہی نہیں دیتا کہ جب تک دوسری قومیں ایک برائی کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گی وہ بھی اس برائی میں ان کی طرح ملوث رہے گی۔
آج مسلمان اہل علم ودانش کو جرأت کے ساتھ صاف صاف اعلان کرنا چاہئے کہ غلامی کا کوئی بھی دروازہ امت مسلمہ کھولنے کی مجاز نہیں ہے، اور اگر کوئی دوسری قوم کسی بھی حوالے سے ایسا کوئی دروازہ کھولے گی تو امت اس کو پوری طاقت سے روکے گی۔

محبت ہوجائے تو کیا کریں؟؟

جب اسکولوں میں تعلیم اتنی مخلوط نہیں ہوتی تھی، اور سماج میں بے پردگی اس قدر عام نہیں تھی، تب بھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے معاشقہ کے واقعات پیش آیا کرتے تھے، البتہ اس زمانے میں معاشقہ کرنے کے لئے بڑے جوکھم اٹھانے پڑتے تھے، اور شادی آسانی سے ہوجایا کرتی تھی۔ اب تو معاشقہ کرنا بہت آسان ہوگیا ہے اور شادی کرنا ایک پہاڑ جیسا کام لگتا ہے۔ پہلے محبت رچانے کے کبھی کبھی واقعات پیش آتے تھے، مگر اب تو خاص طور سے تعلیمی اداروں کا پورا ماحول اسی رنگ میں ڈھلتا جارہا ہے۔
ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ نئے زمانے کے نوجوانوں سے اس موضوع پر کھل کر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلام کی نظر میں مثالی اور قابل رشک نوجوان تو وہی ہے جس کی جوانی بے داغ ہو، جس کی شخصیت کی عمارت کی کرسی اتنی اونچی ہو کہ گندگی کا سیلاب کتنا ہی طلاطم خیز ہو مگر اس کی چوکھٹ تک نہ پہونچ سکے، اور اس کی دیواروں میں ایمان کی ایسی مضبوطی ہو کہ شیطان اس میں رخنہ اندازی نہ کرسکے۔ جس کی نگاہ نیچی رہے اور ذوق نگاہ بہت اونچا ہو، جو اپنی جوانی اس طرح گزارے کہ گویا قیامت کے دن عرش کے سائے میں جگہ ڈھونڈ رہا ہو، اور جس کی سیرت اتنی پاکیزہ ہو کہ جنت کی پاک حوریں اس کا بیتابی سے انتظار کریں۔
تاہم اگر کوئی نوجوان غفلت کے نتیجہ میں کسی معاشقہ میں پھنس جائے، تو اس کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں، یا تو وہ اسی راستے پر آگے بڑھتا چلا جائے، ایسی صورت میں اس کا ہر قدم اللہ کو ناراض کرنے والا ہوگا، یہاں تک کہ وہ گناہوں کی گہری کھائی میں جاگرے گا۔ اور گناہوں کی لذت اسے اللہ کے غضب سے قریب کرتی رہے گی۔ اور جو ایک بار شیطان کے بہکاوے میں آجاتا ہے، وہ پھر بہکتا ہی چلا جاتا ہے، اور کبھی تو اس دنیا ہی میں بڑے دردناک انجام سے دوچار ہوتا ہے۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال لے، کسی کی محبت نے اگر دل میں گھر کرلیا ہے، تو اس احساس کو دل میں ہی رہنے دے، اور اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھائے، اور اللہ سے دعا کرے کہ اس کے دل میں جو محبت آ بسی ہے، وہ ایک پاکیزہ رشتے میں تبدیل ہوجائے۔ دراصل محبت کا ایک تو دل میں بس جانا ہے، اس پر تو انسان کا زیادہ اختیار نہیں ہوتا ہے، اور ایک محبت کے اعمال وافعال کا ظاہر ہونا ہے، یہ انسان کے بس میں ہوتا ہے، اور انسان جب چاہے اپنے آپ کو اس سے روک سکتا ہے۔ یہ کام ذرا مشکل تو ہوتا ہے، لیکن اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے مشکل کام بھی تو کرنا پڑتے ہیں۔
تیسرا راستہ یہ ہے کہ معاشقہ کو فورا نکاح کے پاکیزہ رشتے میں تبدیل کردیا جائے، یہ توبہ کرنے کا اور گناہوں سے بچنے کا ایک مناسب طریقہ ہے۔ لیکن یہ مشورہ بہت سے لوگوں کو عجیب سا لگتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسے لڑکے کی شادی کیسے ہوسکتی ہے جو ابھی پڑھ رہا ہے، اور کمانے کی عمر سے برسوں کی دوری پر ہے، جو خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا وہ خاندان کا سربراہ کیسے بنے گا؟؟؟ لیکن یہ سارے خدشات اس بڑے نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہوجاتے ہیں، جو گناہوں کے راستے پر چلنے میں ہے۔ افسوس کہ بڑے لوگ شادی کرنے کے لئے ہزار شرطوں اور معیاروں کا خیال کرتے ہیں، جبکہ بچے معاشقہ کرتے وقت کسی بات کا خیال نہیں کرتے۔
سرپرستوں کو اس مرحلے میں آگے بڑھ کراپنی اولاد کی مدد کرنا چاہئے۔ یہ سوچنے کے بجائے کہ اولاد نے کس کو پسند کیا، ان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کی اولاد تباہی کے کنارے جا کھڑی ہوئی ہے، اور ذرا سی دیر ہونے کی صورت میں وہ اور ان کی اولاد خدا کی نظر میں ناپسندیدہ نہ ہوجائیں۔ والدین کی پسند اور ناپسند کی اہمیت اس وقت تک ہے جب تک اولاد نے خود کچھ نہ پسند کیا ہو، لیکن جب اولاد پسند کے مرحلے سے آگے بڑھ جائے تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے افسانہ محبت کو جلد از جلد شادی کے خوب صورت انجام تک پہونچادیں، اس سے پہلے کہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور والدین اپنے تساہل کی وجہ سے شریک گناہ قرار پاجائیں۔
اگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ باقاعدہ ازدواجی زندگی اس طالب علمانہ عمر میں شروع کی جائے تو وہ صرف شرعی نکاح پر اکتفا کرسکتے ہیں، اور رخصتی کے لئے کسی مناسب وقت کو طے کرسکتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نکاح کے بعد ان کا اظہار محبت شریعت کی رو سے حلال ہوجائے گا، اور جو کام اب تک گناہ تھا وہ عبادت اور کار ثواب بن جائے گا۔ یہ فائدہ بھی بہت بڑا فائدہ ہے۔
یمن کے مشہور عالم شیخ عبدالمجید زندانی تقریبا دس سال پہلے یوروپ کے دورہ پر گئےتھے، لوگوں نے وہاں کے مسلمان طلبہ وطالبات کے بگاڑ اور حالت زار کا ذکر کیا، انہوں نے خاصے غوروخوض کے بعد یہ تجویز دی کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بہترین ایمانی تربیت کی ذمہ داری قبول کریں، اس کے باوجود اگر ایسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو جن لڑکوں اور لڑکیوں میں معاشقہ ہوگیا ہے ان دونوں کے سرپرست حضرات مل کر ان کا شرعی نکاح کرادیں، رخصتی کو مناسب وقت کے لئے موخر کردیں، اور ایک خاص عمر تک کفالت کی ذمہ داری لڑکے پر ڈالنے کے بجائے دونوں کے سرپرست نباہ لیں۔
مغربی لائف اسٹائل نے جس طرح ہمارے ملک کے تہذیبی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے، میں سمجھتا ہوں یہ تجویز یہاں بھی قابل عمل ہوسکتی ہے، نئی نسل کو گناہوں سے بچانے کے لئے۔ اس سلسلے میں عام معاشرہ کو بھی معاون ومددگار بننا ہوگا۔ ہمارے معاشرہ میں جو معاشقہ میں پڑنے کے بعد شادی کرلیتا ہے وہ زیادہ بڑا گناہ گار سمجھا جاتا ہے، اور جو معاشقہ کے نام پر لڑکی کو دھوکہ دیتا ہے اور مطلب براری کے بعد فرار ہوجاتا ہے اسے لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔
(اس موضوع سے جڑے ہوئے اور بھی پیچیدہ سوالات ہیں جن پر آئندہ گفتگو کی جائے گی۔)

ظالم کی موت کو ظالم کی موت کہنا شہادت حق ہے

تاریخ کے صفحات میں یہ بات محفوظ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی ایک ظالم شخص تھا، اس کے حکم پر بہت سارے صالحین کی گردنیں اڑادی گئی تھیں، اور اللہ کے بہت سارے ولیوں کو سخت تکلیفوں سے دوچار کیا گیا تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس نے قرآن مجید کی نشر واشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اور مسلم مملکت کی توسیع کے سلسلے میں بھی کچھ کردار ادا کیا تھا۔ اور تاریخ کے ریکارڈ میں یہ بھی ہے کہ جب حجاج کی موت ہوئی تو حضرت ابراہیم نخعی اس قدر خوش ہوئے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، حضرت حسن بصری اور حضرت عمر بن عبد العزیز تو شکر کے لئے سجدہ میں گرپڑے۔
دراصل ظلم کے سلسلے میں ہمارا موقف بہت واضح اور دو ٹوک ہونا چاہئے، ظلم کرنے والے کی ایک ہی پہچان ہونا چاہئے، یعنی ظالم۔ خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اور خواہ وہ زندہ ہو یا مرچکا ہو، خواہ اس نے کچھ اور بھلے کام بھی کئے ہوں یا نہ کئے ہوں۔
جس شخص کے حکم سے گجرات کے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہ بھی ظالم ہے، اور جس کے کہنے پر رابعہ کے میدان میں اور قاہرہ کی مسجدوں میں مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا وہ بھی ظالم ہے۔ جس کے حکم سے بوسنیا اور کوسوفو میں اجتماعی قتل عام اور اجتماعی عصمت دری ہوئی وہ بھی ظالم ہے اور جس کے ایماء سے غزہ کے معصوم بچوں کو قتل کیا گیا وہ بھی ظالم ہے۔ کراچی کے بے گناہوں کا قتل کرانے والا بھی ظالم ہے اور پشاور کے بچوں کا قتل کرانے والا بھی ظالم ہے، ظالموں میں اپنے ظالم اور پرائے ظالم کی تقسیم درست نہیں ہے۔ ہر ظالم رہتی دنیا تک لائق مذمت ہونا چاہئے۔
اگر کسی شخص نے انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوں، اور اس کے مرنے کے بعد کچھ لوگ اسے ایک ظالم کی بجائے ایک محسن انسانیت کے طور پر یاد کرنے لگیں، تو سمجھ لینا چاہئے کہ ظلم کے سلسلے میں ان لوگوں کا موقف کمزور اور مشکوک ہے۔ موت کا کام ظلم کے داغ کو دھونا نہیں ہے، بلکہ ظالم کو حشر کے میدان کا راستہ دکھانا ہے، جو اپنی زندگی میں ظالم ہوتا ہے وہ مرنے کے بعد بھی ظالم رہتا ہے جب تک کہ مظلوموں کی داد رسی نہ ہوجائے، اور اس ظالم کو اس کے ظلم کی قرار واقعی سزا نہ مل جائے۔
حفیظ نے خوب کہا:
زنجیریں تو کٹ جائیں گی ہاں ان کے نشاں رہ جائیں گے
میرا کیا ہے ظالم تجھ کو بدنام کریں گی زنجیریں
جب کوئی کسی ظالم کے مرنے پر دعا کرتا ہے کہ اللہ اسے جنت میں اعلی مقام عطا کرے، اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے، اور حوض کوثر پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت عطا کرے، تو دراصل وہ یہ فراموش کردیتا ہے کہ آخرت کیوں برپا ہوگی، اور سارے انسانوں کو جمع کرکے مالک یوم الدین سب کا حساب کیوں لے گا۔ دراصل آخرت پر ہمارا ایمان بہت واضح اور محکم ہو یہ بہت ضروری ہے، ہماری دعائیں بھی ہمارے ایمان کی ترجمانی کریں۔
کسی ظالم کی موت کو جب ہم ظالم کی موت قرار دیتے ہیں تو اس شہادت حق کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہیں، جو امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ صحابہ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے تو کہا کہ یہ ایک برے آدمی کا جنازہ ہے، اور ایک اور جنازہ کے پاس سے گزرے تو کہا کہ یہ ایک اچھے آدمی کا جنازہ ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت کا فیصلہ ہوچکا ہے، اور جس کی تم نے برائی کی اس کے لئے جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہے، تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔
اہل ایمان کا منصب حق کی گواہی دینا ہے، وہ اسی مردے کی تعریف کرتے ہیں جو واقعی قابل تعریف ہو، اور اسی مردے کو برا کہتے ہیں جو واقعی برا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام اس سلسلے میں بہت دوٹوک رویہ رکھتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مردوں کو گالی دینے کی اجازت ہے، مردوں کو گالی دینے سے تو منع کیا گیا ہے، لیکن ظالم کو ظالم کہنا گالی دینا نہیں ہے، بلکہ ایک سچائی کا اعلان ہے، اور ہر زندہ ظالم کو صاف صاف یہ بتا دینا ہے کہ اگر تم اپنے ظلم سے باز نہیں آئے تو مرنے کے بعد بھی ظالم کی حیثیت سے ہی نفرت سے یاد کئے جاؤ گے۔
کسی ظالم کے مرنے پر اس کے ظلم کو نظر انداز کردینا اور اس کی دوسری خوبیوں کو تلاش کرکے بیان کرنا، دراصل تاریخ کو غلط مواد فراہم کرنا ہے، یہ غلط مواد آنے والی نسل کو گمراہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے، کہ جو درندہ صفت انسان انسانیت کے لئے ایک ننگ تھا، وہ ان کی نظر میں مسیحا اور محسن انسانیت قرار پا جائے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی روشنی میں تعلیم دی کہ جب کوئی مصیبت آئے تو إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا کرو، چنانچہ مسلمان اس تعلیم کی روشنی میں یہ اس وقت پڑھتے ہیں جب کسی فرد کی وفات پر وہ صدمہ سے دوچار ہوتے ہیں، اور اس کی وفات کو اپنے لئے باعث تکلیف سمجھتے ہیں۔
لیکن ایک ظالم کی موت مصیبت کا آنا نہیں بلکہ مصیبت کا جانا ہوتی ہے، جب کوئی ظالم کیفر کردار کو پہونچتا ہے تو اس موقعہ پر پڑھنے کے لئے امام طاوس نے قرآن مجید کی ایک اور آیت تجویز کی ہے، ہوا یہ کہ جب ظالم حجاج کی موت کی خبر ان کو ملی تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور یہ آیت پڑھی: فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الأنعام:45]َ۔ "ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی، اور شکر کا سزاوار حقیقی اللہ ہے"۔
ہر ظالم کے مرنے پر اس سچائی کا اعلان ضروری ہے ظالموں کو خبردار کرنے کے لئے، کہ ظلم سے باز آجاؤ، ورنہ قیامت تک اللہ کی مخلوقات تم پر لعنت بھیجتی رہیں گی۔ اور قیامت کے دن اللہ ظالموں کی سخت پکڑ کرے گا۔

اشتعال دلانا بدتمیزی ہے، مشتعل ہوجانا کمزوری ہے

مومن کی شان اور اس کے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسانوں کو شائستگی اور متانت کے ساتھ دعوت غور وفکر دے، خلوص اور ہمدردی کے ساتھ ان کے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی کوشش کرے۔
ایک مومن اشتعال انگیزی کا مرتکب نہیں ہوسکتا، کیونکہ انسانوں کو اشتعال دلانا ایک گھٹیا اور غیر اخلاقی حرکت ہے، جس کا ارتکاب کرنا کسی بھی انسان کو زیب نہیں دیتا۔ اشتعال انگیز تقریریں ہوں یا بیانات، فلمیں ہوں یا کارٹون، اشتعال دلانے والا شخص مسلمان ہو یا غیر مسلم، اشتعال دلانا بہرحال قابل مذمت ہے۔
کسی کے اشتعال دلانے پر مشتعل ہوجانا ایک بڑی کمزوری کی علامت ہے، اور کمزوری دکھانا مومن کے شایان شان نہیں ہے۔ سمجھ دار انسان اپنے جذبات پر اس طرح قابو رکھتا ہے کہ پہاڑ حیران ہوجاتے ہیں، وہ اپنے جذبے کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں کبھی نہیں آنے دیتا، ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔
اشتعال انگیزی کا ایک علاج شبنم مزاجی ہے، اشتعال دلانے والا جب حسب توقع رد عمل نہیں دیکھ پاتا تو ہار کا زخم خود اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اور اپنے آپ میں رسوا ہوجاتا ہے۔ شبنم مزاجی کا مطلب بےحسی اور بےضمیری نہیں بلکہ حکمت اور دانائی ہے۔
اشتعال انگیزی کا ایک اور علاج یہ ہے کہ اشتعال انگیزی کی قباحت کو عام کردیا جائے کہ جو اس حرکت کا ارتکاب کرے وہ سب کی نگاہوں میں گرجائے۔ ہر کوئی اس پر تھو تھو کرے، اور اسے کہیں منھ چھپانے کی جگہ نہیں ملے۔ میں نے خود دیکھا کہ ایک تعلیمی ادارے میں کتوں کو پتھروں سے مار مار کر بے جان کردینا طلبہ کا محبوب مشغلہ تھا، اور ایک دوسرے تعلیمی ادارے میں کتوں کو نگاہ غلط انداز سے دیکھنا بھی معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ماحول کس طرح کا بنایا جائے، ایسا ماحول جہاں انسانیت کا احترام ضروری قرار پائے، یا ایسا ماحول جہاں انسانیت کی بے حرمتی بھی انسانوں کا شوق بن جائے۔
اشتعال انگیزی کے جواب میں مشتعل ہوجانا بھی کبھی کبھی اشتعال دلانے والے کو سخت سزا سے دوچار کردیتا ہے، لیکن اس میں قوی اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ مشتعل ہوجانے والا اپنی بہت ساری امتیازی خصوصیات کھوبیٹھے، اور اپنے اصل اور شایان شان مقام ومنصب پہ باقی نہیں رہے۔ گویا بیماری کا علاج بیماری سے زیادہ ضرر رساں ہوجائے۔
جب کوئی شخص انسانیت کے آداب اور تقاضوں کو فراموش کرکے اشتعال انگیزی جیسی بدتمیزی کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے کسی بھی طرح کے ردعمل کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ جب صحیح سمت میں جانے والی گاڑی غلط سمت سے آنے والی گاڑی سے ٹکراتی ہے، تو قلابازیاں کھاتے ہوئے کسی ادب ولحاظ کو روا نہیں رکھتی ہے۔ تاہم یاد رہے کہ ڈرائیونگ میں کمال یہ ہے کہ غلط سمت سے آنے والی گاڑی سے اپنی گاڑی کو بچالیا جائے۔ اسی طرح انسانیت کا کمال یہ ہے کہ اشتعال دلانے والوں کی بدتمیزی اور شرارت سے خود کو اس طرح بچالیا جائے کہ شرپسند یا تو نادم ہوکر توبہ کرلیں، یا پھر منھ کی کھائیں، اور ذلت ورسوائی کی کسی کھائی میں جاگریں۔

جب قیادت پڑاؤ ڈال دے

مجھے دنیا کی بہت ساری تحریکوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے، ان کی حرکت وجمود، نشیب وفراز اور عروج وزوال کو بھی کبھی دور اور کبھی نزدیک سے دیکھا ہے، بالآخر میں اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ جس فوج کے سالار ہتھیار پھینک دیتے ہیں وہ فوج شکست خوردہ قرار پاتی ہے، اور جس تحریک کے قائدین پڑاو ڈال دیتے ہیں، وہ تحریک لاشہ بے جان بن جاتی ہے۔
تحریک کے قائدین پڑاؤ اس طرح ڈالتے ہیں کہ وہ تحریک کی تیز رفتار پیش رفت کے بارے میں سوچنا بند کردیتے ہیں، ان کی شخصیت میں ایک خطرناک قسم کا ٹھہراؤ آجاتا ہے، جو تحریک کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے، وہ کام کے نئے نئے طریقے دریافت کرنے کے بجائے پرانے طریقوں کو دوہرانے لگتے ہیں، ان کی آج کی گفتگو اور برسہابرس پہلے کی گفتگو میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ ان کے کسی مضمون اور کسی تقریر سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ تحریک کی پیش قدمی کے لئے راتوں میں اٹھ کر غوروفکر کرتے ہیں، ان کے اقدامات ان کے دل کے اضطراب کی ترجمانی نہیں کرتے۔
اگر کوئی انقلابی شخص بڑھاپے کے کسی مرحلے میں پڑاؤ ڈال دے تو یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، ہر شخص پر ایسا وقت آتا ہے جب اس کی توانائیاں جواب دینے لگتی ہیں، البتہ عیب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس قدرتی نا اہلی کا اعتراف نہ کرے اور خود تو پڑاؤ ڈالے ساتھ ہی اپنی قیادت میں پوری تحریک کو پڑاؤ ڈالنے کو کہے۔ خود شناسی اور ایمان داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ قائد اس مرحلہ میں پہونچنے سے پہلے قیادت کا پرچم کسی تازہ دم شخصیت کے حوالے کردے، اور فرض امانت سے پوری دیانت داری کے ساتھ سبک دوش ہوجائے۔ نہ کہ ساغرومینا کو اپنے سامنے رکھ چھوڑنے پر اصرار کرے۔
یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ پڑاؤ ڈالنے کی نوبت صرف بوڑھوں پر آتی ہے، بہت سے سیاہ ریش اور سیاہ زلف نوجوان بھی راہ شوق میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، اور بزبان حال کہتے ہیں مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ۔ اور نوجوانوں کا پڑاؤ ڈال دینا بہرحال عیب کی بات ہے۔

خوش مزاجی سے گھر کی رونق ہے

(اس زمانے میں کہ گھر کے باہر سکون کو برباد کرنے والے بہت سارے اسباب پیدا ہوگئے ہیں، گھر کے اندر سکون وراحت کے اسباب کا زیادہ سے زیادہ ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے، زیر نظر مضمون کا مقصد یہی ہے)
چراغوں کی بارات میں کسی ایک کی لو مدھم پڑ جاتی ہے یا کوئی ایک بجھ بھی جاتا ہے تو فرق نہیں پڑتا کہ باقی جلتے رہتے ہیں، اور روشنی برقرار رہتی ہے، لیکن گھروں کے اندر انسانوں کی کہکشاں کے چمکنے دمکنے کے اطوار وانداز کچھ اور ہوتے ہیں، وہ یوں کہ کسی ایک کا مزاج خراب اور موڈ آف ہوتا ہے تو ایک ایک کرکے سب کے دل کی شمع بجھنے لگتی ہے، ایک منھ پھولتا ہے اور باقی منھ اتر جاتے ہیں، آخر کار مزاج کی خرابی پورے گھر پر اپنا ڈیرہ ڈال دیتی ہے، اور پھر گھر اچھا نہیں لگتا، کیونکہ گھر کی رونق تو خوش مزاجی سے ہوتی ہے۔
گھرکا ماحول اور موسم نشاط آگیں اور طرب انگیز رہے، خوشی اور خوش مزاجی کے فوارے ہر چہرے سے جاری ہوں ، یہ سب کی چاہ ہوتی ہے، ان کی بھی جو گھر میں مستقل رہتے ہیں ، اور ان کی بھی جو پردیس سے کچھ دن گزارنے کے لئے آتے ہیں، اور اسی لئے آتے ہیں کہ خوشی کی کچھ ساعتیں اپنے دامن زندگی میں ٹانک لیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی ایک کا بات بے بات پر موڈ بگڑتا ہے اور ساتھ ہی پورے گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر فرد یہ تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ جب اور جتنی دیر کے لئے کسی بھی وجہ سے اس کادل برا ہو ا ہو، وہ مزاج کی خرابی کو اپنے اوپر تان کر خاموشی اور گوشہ نشینی اختیار کرلے، اور کوئی چھیڑ چھاڑ کر کے اس کے دل کی خرابی کو پریشان نہ کرے۔ لیکن کوئی فرد بے مزا ہونے کا یہ حق گھر کے دوسرے افراد کو دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے،چنانچہ جب وہ خود کسی اچھے موڈ میں ہوتا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ موسم نشاط اور طرب کا تقاضا کررہا ہے ، تو اسے بالکل یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ کوئی اور اپنے موڈ کی خرابی کا اظہار کرکے خوشی کے موسم کو خراب کردے۔
مزاج کا خراب ہوجانا، ایک فطری بات ہے اس لئے اس پر پابندی لگانا تو شاید درست نہ ہوگا۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل رہنا چاہئے کہ وہ کچھ دیر کے لئے خرابئ مزاج کی چادر اوڑھ کر الگ تھلگ ہوجائے۔ اور کوئی کسی کے موڈ خراب ہونے کو خراب نظر سے نہیں دیکھے۔ تاہم ماحول کی خوش گواری کو برقرار رکھنے کی خاطر مزاج کی خرابی کو جس حد تک چھپایا جاسکتا ہو، اس کو چھپانے کی کوشش کرنا اچھا ہے، بعض لوگ اس میں خوب مہارت رکھتے ہیں، ان کے مزاج کا غبار بھانپنے اور پھانکنے کے لئے ان کے بہت نزدیک جانا پڑتا ہے، اور بہت غور سے دیکھنا ہوتا ہے۔
یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ مزاج کی خرابی کا سبب اگر گھر کے لوگ نہ ہوں تو اس کا اس طرح اظہار نہیں کیا جائے کہ گھر کے لوگ خود کو قصور وار سمجھ کر یا تو احساس جرم کا شکار ہوں یا تہمت جرم کو دفع کرنے کے لئے پریشان ہوں۔ہاں اگر کوئی قصور وار ہے تو اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو اپنے قصور کا اعتراف کرکے روٹھے ہوئے کو منالے۔سچ بات یہ ہے کہ جو اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگ لیتا ہے اس کا قد بلند رہتا ہے، اور جو اپنی غلطی پر اڑا رہتا ہے وہ اس کی نظر میں تو بہرحال چھوٹا رہتا ہے جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی ہے۔
بعض لوگ اپنی اور دوسروں کی استطاعت سے باہر نکل کر اپنے سر یہ ذمہ داری اوڑھ لیتے ہیں کہ سارے گھر والوں کو ہمیشہ اچھے موڈ میں رکھیں گے، اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے ہیں ، اور جب کسی کا موڈ خراب دیکھتے ہیں تو اس کے موڈ کو اچھا کرنے کے خوب خوب جتن کرتے ہیں۔ اور جب ان کو ناکامی ہوتی ہے تو اداس یا بدحواس ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو وہ کام کرنا چاہئے جو ان کے اختیار میں ہو، کسی کی شکایت ، مصیبت یا تکلیف تو دور کی جاسکتی ہے، لیکن مزاج کو اچھا کرنا بسا اوقات خود صاحب مزاج کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔ جو بات لوگوں کے اختیار میں ہے وہ یہ کہ اگر ایک شخص کا مزاج کسی وجہ سے یا بلا کسی وجہ سے خراب ہوجائے تو باقی لوگ اپنے مزاج کو خراب ہونے سے بچائے رکھیں، اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو گھر خوشی اور خوش مزاجی کا گہوارہ بنا رہے گا، اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ خود متاثر فرد کے مزاج کودرست ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے مزاج کی خرابی پر باقی لوگ خوشی کے شادیانے بجائیں، مطلوب یہ ہے کہ اپنی خوش مزاجی پر آنچ نہ آنے دی جائے۔
خوش مزاجی کو کسی کی ہنسی اڑانے کا بہانہ بنانا بہت بری بات ہے، دراصل کسی کے ساتھ ہنسنا خوش مزاجی ہے، اور کسی کے اوپر ہنسنا اخلاقی بیماری ہے۔ اپنے ساتھ رہنے بسنے والوں پر وار کرنا خوش آئند عمل نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ غصہ میں کیا جائے یا ہنسی ہنسی میں کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ دوسروں سے تو خوش مزاجی چاہتے ہیں ، لیکن خود خوش مزاج رہنے کی ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ ایک ساس صاحبہ کو جنہیں اپنے مزاج کا جائزہ لینے کا موقعہ کبھی نہیں ملا، یہ کہتے سنا گیا کہ میری فلاں بہو بہت خوش مزاج ہے، کسی بات کا برا نہیں مانتی، باقی بہویں اس قدر خوش مزاج نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک خاتون اپنے مہمانوں کا ذکر کررہی تھیں، جن میں ان کو کچھ بہت ملنسار لگیں اور کچھ خشک مزاج سی لگیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کے مزاج پر تبصرہ کرنے والی خاتون خود کس زمرے میں آتی ہیں، یا آنا پسند کرتی ہیں، اور دوسرے ان کو خوش مزاج سمجھتے ہیں یا خشک مزاج؟؟ دوسروں کے مزاج پر تبصرہ کرنے کے بجائے اگر آپ خود کو خوش مزاج بنالیں تو دوسروں کو بھی اپنے مزاج کی اصلاح کرنے میں مدد ملے گی۔یاد رکھیں آپ کا کمال اس میں نہیں ہے کہ آپ کو اچھے دوست مل جائیں، یہ تو آپ کی قسمت ہے۔ آپ کا کمال تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ایک اچھے دوست کی صورت میں مل جائیں۔ اور زندگی تو زندہ دلی کا نام ہے۔

مسلمانوں کا سیاسی شعور ---بالغ کب ہوگا؟

 ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں نے انتخابی عمل میں شرکت کا سب سے پہلا تجربہ 1920 میں کیا، اور اس کے بعد سے مسلمان انتخابی سیاست کے تجربات سے مسلسل گذررہے ہیں۔ ایک صدی مکمل ہونے کو ہے لیکن اب تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی شعور کے معاملہ میں اپنے ہم وطنوں سے کافی پیچھے ہیں، اور اب تک ان کا سیاسی شعور بالغ نہیں ہوسکا ہے۔ اسباب کئی ہوسکتے ہیں، ان اسباب پر ذرا کھل کر گفتگو ہو بس یہی اس مضمون کا مقصد ہے۔ میرے خیال میں سیاسی بلوغ اور پختگی کی دو اہم علامتیں ہیں، پہلی یہ کہ سیاسی میدان میں کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے ، بلکہ نئے ہمت ور کھلاڑیوں کو اپنے جوہر دکھانے کا پورا موقعہ حاصل ہو۔ دوسری یہ کہ اگر معاشرہ کے کچھ لوگ اقدار پر مبنی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، تو ان کو ان اقدار کی پاس داری کا پورا پورا موقعہ حاصل ہو، اور کوئی مصلحت ان کے پاؤں کی زنجیر اور راستے کی رکاوٹ نہ بن جائے۔ مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی اور ناپختگی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے درمیان نئی سیاسی قوتوں کو ابھرنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے، دوسرا مظہر یہ ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کے لئے ساز گار ماحول حاصل نہیں ہے۔ بظاہر ہر فرد اقدار واخلاق کا حامی نظر آتا ہے، لیکن جب انتخابات کا نقارہ بجتا ہے تو ساری اقدار پسندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور دو بیمار رجحان ذہن ودماغ پر سوار ہوجاتے ہیں۔ ایک یہ بیمار رجحان کہ ووٹوں کو بٹوارے سے بچانے کے لئے کسی ایک بظاہر مضبوط امیدوار کی طرف سب جھک جائیں، دوسرا یہ بیمار رجحان کہ فسطائیت کے مقابلے میں مضبوط تر امیدوار کی غیر مشروط حمایت اور تائید کردی جائے۔ ووٹوں کے تقسیم ہوجانے کا خوف مسلمانوں کے دل ودماغ میں اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ انہیں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔ سیاسی بازیگر اس خوف کا خوب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی رہنمائی کرنے والے دانش ور بھی اس خوف سے باہر نکل کر نہیں سوچ پاتے۔بے سروپا حوالے دے کر کچھ امیدواروں کو بیٹھ جانے کی صلاح دی جاتی ہے، تو کچھ کو بے وزن کردیا جاتا ہے، کہ اس بار سروں پر منڈلاتے خطرے کو روکو اگلی بار آپ کو بھی موقعہ دیں گے، وہ اگلی بار کبھی نہیں آتا، اور خطرہ ہر بار حاضر ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں مجلس کے کارکن دوسرے مقابل امیدواروں یا پارٹیوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ان نئے امیدواروں کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں ، اور اگر ووٹ آپس میں تقسیم ہوگئے تو کوئی دوسرا نکل جائے گا، اور جب یہی پارٹی مہاراشٹر پہونچتی ہے تو وہاں کی سیکولر پارٹیاں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ مجلس یہاں مسلمانوں کے ووٹ بانٹنے کی نیت سے آئی ہے۔ دراصل ہر ہندوستانی شہری کو الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے، اور ہر شہری کو اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، البتہ کسی کو اخلاقا بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کو یا ووٹر کو یہ الزام دے کہ اس کی وجہ سے اس کے من پسند امیدوار کے ووٹ تقسیم ہوئے اور وہ جیت نہیں سکا۔ اس طرح کی غیر جمہوری الزام بازی سیاسی بچکانہ پن کا پتہ دیتی ہے۔ ووٹوں کے بٹوارے کو زیادہ اہمیت دینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان نئی سیاسی قوت اور قیادت کو نشوونما کے لئے سازگار ماحول نہیں مل پاتا ہے، ایمان داری اور فلاح وبہبود کا جذبہ اور نعرہ لے کر کچھ ہمت ور اٹھتے ہیں، لوگ ان کے قدر دان بھی ہوجاتے ہیں، لیکن پھر خوف اور اندیشے کی ایک لہر چلتی ہے اور یوں سارے ووٹ گھاگ بازیگروں کی جھولی میں اس طرح جاگرتے ہیں کہ گویا لاکھوں عوام میں چند سو بھی اصول پسند اور قدروں کے پاس دار نہیں تھے۔ فسطائیت کے غلبے اور ووٹوں کے بٹوارے کا حوالہ دے کر ہر انتخاب کے موقعہ پر نئے کھلاڑیوں کی بری طرح ہمت شکنی کردی جاتی ہے، اور پرانے کھلاڑیوں کو ان کی خراب پرفارمینس کے باوجود اپنے اوپر مسلط رہنے دیا جاتا ہے۔ بہت ساری دینی جماعتیں اور دانش ورانہ تنظیمیں بھی سیاسی رہنمائی کے نام پر اس بچکانہ کھیل میں شریک ہوجاتی ہیں، ہوسکتا ہے اس سے چھوٹی مدت کے فائدے کچھ حاصل ہوجاتے ہوں لیکن طویل مدت کے فائدوں سے عوام کلی طور سے محروم رہتے ہیں۔اور اس طرح سیاسی بلوغ اور پختگی کی عمر ایک صدی گزرنے پر بھی نہیں آتی ہے۔ دراصل سیاسی پختگی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کو ووٹ دے جو اس کی نظر میں سب سے بہتر ہو، نہ کہ اسے جو ہو تو اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ مگر جیتنے کی پوزیشن میں بتایا جاتا ہو۔ حالانکہ وہ جیتنے کی پوزیشن میں صرف اس لئے دکھائی پڑتا ہے کہ ہر شخص فیصلہ اس کی شخصیت کے بجائے اس کی پوزیشن کو دیکھ کر کررہا ہوتا ہے، وہ بھی لوگوں کی کمزوری جانتا ہے اس لئے اپنی شخصیت سے بے پرواہ ہوکر اپنی پوزیشن کو بڑا دکھا نے کے لئے الٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔پھر اس میں کیا حرج ہے کہ جیت تو ایک بد کردار آدمی کی ہو، لیکن ایک دیانت دار آدمی کو ہارنے کے باوجود ان سب لوگوں کے ووٹ ملیں جو دیانت داری کے قدر دان ہیں، کہ یہ بات ریکارڈ میں تو رہے کہ عوام کے درمیان دیانت داری کے قدردان بہر حال پائے جاتے ہیں، سارے کے سارے چڑھتے سورج کے پجاری نہیں ہیں۔ اگر بٹوارے کے اس بیمار تصور سے بالاتر ہوکر نئے افراد کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا پورا موقعہ دیا جائے، تو ممکن ہے دو چار انتخابات کے نتائج عوام کی چاہ کے بالکل خلاف آجائیں، ہوسکتا ہے دوچار مرتبہ ایسے لوگ جیت جائیں جن سے دشمنی اور خطرہ ہو، لیکن عوام کی مخلصانہ اور بے لوث ہمت افزائی سیاسی کھلاڑیوں کی ایک زبردست کھیپ ضرور تیار کردے گی، جس کے بہت سارے افراد آگے چل کر عوام کے سچے قائد اور ان کے مفادات کے مضبوط محافظ بن سکیں گے، یہ فائدہ بہت بڑا ہوگا ان وقتی نقصانات کے مقابلے میں جو اس راستے میں اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب انتخابات کا ہنگامہ برپا ہو، یہ سبق عام کرنا بہت مشکل ہے، لیکن دو انتخابوں کے درمیانی وقفے میں جو کافی طویل ہوتا ہے، پوری قوت کے ساتھ اس پیغام کو عام کرنا اچھی ماحول سازی اور مثبت مزاج سازی کے لئے ضرور مفید ہوگا۔نئی پارٹیوں اور تازہ ہمت وروں کو اس کی اہمیت ضرور سمجھنا چاہئے، مبادا ان کے جذبے اور سپنے مسلمانوں کے ناپختہ ونابالغ شعور کی نذر ہوجائیں۔